داد بیدا د۔۔۔قاری فیض اللہ چترالی۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

بے لو ث خد مت کا استعارہ اگر ڈھونڈ نا ہو تو قاری فیض اللہ چترالی کی شخصیت اور خد مات کے آئینے میں نظر آئیگا خدا کا یہ بندہ یو رپ، افریقہ، روس، افغا نستان، وسطی ایشیا سے لیکر پا کستان تک مصیبت زدہ مسلما نوں کی مدد اور خد مت کرتا ہے اس خد مت کا کوئی دفتر نہیں دفتری اور انتظا می خر چہ نہیں مو ٹر وں کا قافلہ نہیں سیکیورٹی اور پرو ٹو کول کا سلسلہ نہیں اللہ کا نا م لیکر اٹھتا ہے کروڑوں روپے کی ما لیت کے برابر نقد امداد اور امدادی سامان از قسم راشن، کپڑے، بسترے، خیمے، ادویات، تعمیراتی سامان، وغیرہ دنیا کے مختلف جگہوں پر سسکتی انسا نیت کو ان کے دروازے پر پہنچا کر دے دیتا ہے اللہ کا شکر ادا کر کے گھر لوٹتا ہے گھر کیا ہے چھوٹا سا فلیٹ اُس کا دفتر بھی ہے اُٹھنے بیٹھنے کی جگہ بھی دنیا بھر کے مہمانوں کی میز بانی کے لئے با نہیں کھو لے ہوئے حجرہ بھی اسلا می تاریخ کے سوا نح نگا روں نے ایسی شخصیات کو درویشی اور سلطا نی کا سنگم قرار دیا ہے اپر چترال میں مو ڑ کھو کی وادی کے خو بصورت مقام گہت میں پیدا ہونے والے قاری فیض اللہ چترالی نے ابتدائی تعلیم گاوں میں حا صل کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کر اچی کا رخ کیا جہاں بنوری ٹاون اور فاروقیہ جیسے مقتدر اداروں سے متد اول نصاب اور دورہ حدیث کے بعد دینی علوم کی اعلیٰ سند حا صل کی سلسلہ نقشبندیہ میں چار مشہور اولیاء اللہ سے بیعت ہوئے ایک موقع پر آپ کو سرکاری ملا زمت کا شوق ہوا تو سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ مو لانا محمد مستجا ب ؒ نے منع کرتے ہوئے کہا یہ خیال دل سے نکا ل دو اللہ پا ک تم سے امت کی اصلا ح اور فلا ح کا بڑا کا م لینے والا ہے اُس وقت آپ ایک مدرسے کے مدرس تھے آپ کے سامنے امت محمد ی ﷺ کو درپیش مسا ئل آتے گئے مسا ئل کے ساتھ وسائل بھی آ نا شروع ہوئے آپ نے ایک ہا تھ سے لیا دوسرے ہا تھ سے تقسیم کیا جب کام کا دائرہ وسیع ہو ا تو آپ کو اندازہ ہو گیا کہ یہی کام تھا جس کی طرف مر شد و مربی نے اشا رہ کیا تھا دینی اور روحا نی تر بیت کا یہ اثر ہوا کہ آپ نے تو کل کیساتھ فقر اور فقر کے ساتھ کسر نفسی کو اپنا معمول بنا یا بڑے کا موں کا ہلکا ساذکر بھی آپ کے طبع نا زک پر گراں گذر نے لگا حا لانکہ جس دور میں آپ کام کر رہے ہیں اس دور میں یہ چلن عام نہیں کا م ہو یا نہ ہو کا م کا ذکر ہو تا ہے اور کا م کرنے والے کو بڑے بڑے القا ب سے یا د کیا جا تا ہے آپ نے دینی تعلیم کا ادارہ مدرسہ اما م محمد کراچی میں اور دوسرا ادارہ جا معہ اسلا میہ دراسن موڑ کھو چترال میں قائم کیا دونوں مدارس کو امت کی اصلا ح اور فلا ح کا ذریعہ بنا یا قاری فیض اللہ چترالی کا کمال یہ ہے کہ ثقہ عالم دین ہو نے کے باو جود اپنے آپ کو مو لا نا، خطیب اور دیگر القا ب سے بے نیاز رکھا آپ نے کبھی لا وڈ سپیکر پر ما ئیک کے سامنے آکر تقریر نہیں کی یہ آپ کے مزاج میں گُندھی ہو ئی انکساری اور تو اضع کے خلا ف ہے آپ خا مو شی میں کا م کرنے کو پسند کر تے ہیں اس انکسا ری کا یہ فائدہ ہو اکہ 1990ء میں سویٹ یو نین ٹو ٹنے کے بعد وسطی ایشیا ء کی پا نچ مسلمان ریا ستیں آزاد ہو ئیں تو وہاں کا م کرنے کی اجا زت آسا نی سے مل گئی آپ نے تا جکستان، ازبکستان، تر کمنستان، کیر غیزیہ اور قزا خستان میں مسا جد کو دوبارہ آباد کر نے مدارس اور مکا تب کا سلسلہ شروع کرنے اور اسلا می کتب تقسیم کرنے کا کام خو ش اسلو بی سے انجا م دیا 5لا کھ کی تعداد میں قرآن پا ک کے نسخے روسی اور انگریزی تراجم کے ساتھ تقسیم کئے ما سکو کے بڑے شہر میں بھی اسلا می مر کز قائم کیا یہ وہ وقت تھا جب مسا جد کو گودام بنا یا گیا تھا مسلمان مرد اور عورتیں اذان کی آواز سننے اور قرآن مجید کی زیا رت کرنے کے لئے بے تاب تھے ان حا لات میں اصلا حی اور فلا حی کا م کے لئے پہلا اصول یہ رکھا گیا کہ کام کی تشہیر نہ ہو خا مو شی سے کا م کیا جا سکے جس کے اثرات چند سا لوں میں ظا ہر ہو نگے اور 4سالوں میں ہی حیرت انگیز اثرات مر تب ہوئے شام اور تر کی میں مصیبت زدہ مہا جرین کے لئے آپ کی خد مات قابل قدر ہیں پا کستان میں اقراء روضتہ الاطفال، صدیقی ٹرسٹ اور دعوت القرآن ٹر سٹ میں آپ کی شاندار خد مات ہیں چترال اور گلگت بلتستان میں آپ کے رفا ہی کا موں کا سلسلہ جا ری ہے آپ کا ہر کا م بے لوث خد مت کا اعلیٰ نمو نہ ہے اس میں قاری صاحب کی تعلیم و تر بیت کا بڑا دخل ہے آپ کے والد گرامی مو لا نا محمد یو سف المعروف اما م استاد اپنے دور کے فقہی عالم تھے پشاور میں اما مت بھی کر تے تھے دینی کتا بوں کا درس بھی دیتے تھے آپ کے ابتدائی اساتذہ میں قاری فضل الٰہی کا شمار مشہور قراء میں ہو تا تھا انہوں نے کینیا افریقہ میں مدارس کا جا ل بچھا یا آپ کے جد اعلیٰ تا جکستان کے علا قہ شفنا ن سے ترک وطن کر کے چترال آئے تھے اس حوالے سے ان کا قبیلہ شغنیے کہلا تا ہے آپ کے پڑ دادا نے لوئیر چترال کے موری پائین سے ہجرت کر کے بہراندور گہت موڑ کھو میں سکو نت اختیار کی گاوں سے حصول تعلیم کے لئے کر اچی پہنچے تو جا معہ میں مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ، مولا نا ادریس میرٹھی ؒ، مو لا نا سلیم اللہ خان ؒ، مولانا مصباح اللہ شاہ اور مولانا بدیع الزمان جیسے نا بغہ روز گار اساتذہ سے کسب فیض کیا حدیث کی اجا زت مولا نا مفتی محمود ؒ اور شیخ ابو الفتاح ابو غدہ سے حا صل کی تصو ف میں مو لانامستجاب ؒ، مولانا یوسف لدھیانوی ؒ، مولانا ادریس انصاری ؒ اور مولانا خوا جہ خان محمد ؒ سے یک بعد دیگرے بیعت ہوئے، رفاہی کا موں کے حوالے سے 1978ء میں صدیقی ٹرسٹ کا رکن بنے اور چترال، گلگت و ازاد کشمیر کے لے نگران مقرر ہوئے،1988ء میں دعوت القرآن ٹرسٹ کے لئے بھی کام کا آغاز کیا مہدی محمد ؒ کی زند گی میں ان کے ہمراہ چترال کے دور دراز دیہات میں طویل دورے کئیے جب رفا ہی کا موں کا سلسلہ وسیع ہوا تو افغا نستان، شام، تر کیہ میں رفا ہی کیمپ قائم کئے عالمی مجلس ختم نبوت کے ساتھ آپ کی وابستگی 1990سے قائم ہے اقراء روضۃ لاطفال ٹرسٹ کے با نی مفتی محمد جمیل خان شہید کے ساتھ مل کر عصری تعلیم کے لئے اقراء سکول قائم کئے، مفتی مزمل حسین کپا ڈیا اور مفتی خا لد محمود کی معیت میں ٹرسٹ کے نا ئب صدر اور گلگت بلتستان و چترال کے لئے نگران کی حیثیت سے خد مات بجا لا تے ہیں اقراء روضتہ الاطفال کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان سکو لوں کے طلباء وطا لبات کو حفظ قرآن، قرء ت و تجوید کے ساتھ دینی و عصری علوم کی تعلیم دی جا تی ہے بور ڈ کے امتحا نات میں ہر سال پو زیشن لینے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے پورے ملک میں 200سکولوں کے اندر ایک لا کھ سے زیا دہ طلبہ زیور تعلیم سے اراستہ ہو رہے ہیں، عصری علوم کی حو صلہ افزائی اور سر پرستی کے حوالے سے قاری صاحب نے 2002ء میں چترال کے سر کاری اور نجی سکولوں سے پشاور بورڈ میں پو زیشن لینے والے طلباء اور طا لبات کے لئے اقراء ایوارڈ مقرر کیا جس میں ہر سال ڈھائی لا کھ روپے کے نقد انعا مات اور وضا ئف تقسیم کئے جا تے ہیں 21سالوں سے یہ سلسلہ جا ری ہے چترال اور گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے متا ثرین کی مدد کے لئے بھی پیش پیش رہتے ہیں متا ثرہ خا ندانوں کو راشن بستر اور خیموں کے ساتھ نقد امداد بھی دیتے ہیں اور متا ثرہ گھروں کی تعمیر کے لئے عمارتی ساما ن، سمینٹ اور جستی نا لیدار چادریں بھی مہیا کر تے ہیں ہر قدرتی آفت کے بعد 3کروڑ سے زیا دہ رقم امداد ی مد میں لگاتے ہیں مگر اپنے کام کی تشہیر نہیں کر تے اقراء ایوارڈ یا کسی اور تقریب میں خود شریک نہیں ہوتے مبادا کوئی تصویر میڈیا پر آجا ئے 64سال کی عمر میں آپ کو اللہ تعا لیٰ نے 21بار حج بیت اللہ کی سعادت سے نواز، بر طانیہ، فرانس، جر منی، سپین، اٹلی اور یو رپ کے دیگر ملکوں کا کئی بار سفر کیا، وسطی ایشیائی مسلم ریا ستوں کے دورے کئے، روس، کینیا، ساوتھ افریقہ، ترکی، شام،قطر، دوبئی، ابو ظہبی کے متعدد دورے کئے یو کرین اور آذر بائیجان کے مسلمانوں میں اسلامی لٹریچر اور قرآن پا ک کے نسخے تقسیم کرنے کا اہتمام کیا اگر ان خد مات کی جزئیات کا احا طہ کیا جا ئے تو حیرت ہوتی ہے کہ چترال کے پسماندہ گاوں سے اُٹھنے والا کمزور بندہ اتنے سارے کا م کیسے انجام دے سکتا ہے تا ہم اللہ پا ک کی ذات بے نیا ز ہے اور یہ سب اللہ پا ک کا کرم ہے
ایں سعادت بزور بازونیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔