دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔آٹے کا تھیلا اور ہجوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومت کی غریب پروری اپنی جگہ لیکن اس غریب پروری کے تناظر میں جو بے ترتیب ہجوم دیکھنے میں آتا ہے یہ سوالیہ نشان بنتا ہے ایک یہ کہ کیا ہم اس طرح حالت اضطراری میں ہیں کہ جان پہ بنی ہے۔۔۔ ایک یہ کہ کیا لالچ اور طوطا چشمی نے ہمیں اندھا کردیا ہے کہ ہمیں اپنے سوا دوسرا کوٸی نظرنہیں آتا ۔ایک یہ کہ وہ ہمارا ایک دینی جذبہ ہوا کرتا تھا ”ایثار“ اس پر ہم بڑے اترا اترا کے غیروں کو پیغام دیتے رہے ہیں کہ ہمارا دین ” ایثار“ کا دین ہے ۔ایک یہ کہ ہم ابھی تک ”قوم “ نہیں بن پاۓ ” ہجوم “ ہیں ۔سب سوالات اپنی جگہ لیکن اس ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارے بھی تو ہیں یہ پولیس ، یہ انتظامیہ ، یہ اگر ضرورت پڑی تو رینجرز ، آرمی ۔۔۔۔یہ سب کیا مفروضے ہیں ۔۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہلے انتظامات کیے جاٸیں پھر آٹا تقسیم کا عمل ہو ۔پہلے کوٸی مکینیزم ترتیب دی جاۓ پھر عمل ہو ۔۔تاریخ دی جاۓ جگہے کا انتخاب ہو وقت کا ذکر ہو علاقہ مکینوں کو مطلع کیا جاۓ فہرست بناٸی جاۓ پھر اس نیک کام کا آغاز ہو ۔یہ تو ہماری بد بختی ہےکہ ہم ہمیشہ دوسروں کو دیکھتے ہیں اپنی کوتاہی کبھی نظر نہیں آتی کوٸی اللہ کا بندہ کہہ دے کہ کوتاہی میری ہے یہ کبھی تجربے میں نہیں آیا۔اگر کبھی بااثر فرد سے اس کی کوتاہی کا ذکر کیا جاۓ تو طوفان اٹھے گا ۔عدالت تک اگر کسی کی کوتاہی بتاۓ تو قبول کرنے کے لیے کوٸ تیار نہیں ہوتا ۔حکومت میں بیٹھا شخص اپنی ناکامی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالتا ہے ۔انتظامی کرسی پر بیٹھا بندہ اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہے کسی استاد سے کہو کہ تمہارا شاگرد نالاٸق کیوں ہے؟۔۔ وہ کہے گا معاشرہ خراب ہے ۔پولیس والے سے کہو کہ یہ بد انتظامیاں کیوں ؟۔۔۔وہ کہے گا لوگ خراب ہیں ۔۔۔حکمران سے کہو کہ تو نےاس ملک کا کباڑہ کردیا وہ کہے گا قوم نا اہل ہے یہی بد بختی ہے ۔آٹا تقسیم کے ایک ہجوم میں ایک نوجوان چیخ چیخ کر نا انصافی کی دھاٸی دے رہا تھا اس کو کنارے پہ کھینچ کر آٹے کا تھیلا تھما دیا گیا تو انصاف کا نعرہ خاموش ہوگیا ۔پھر دوسرا چیخنے لگا جو بے زبان تھے وہ بیٹھے اپنی قسمت کو کوستے رہے ۔کیا ملک کی ساری مشینری اس لیے بیٹھی ہے کہ بس اپنی چمکتی کرسی پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں ۔ایک یوٹیلٹی سٹور کے سامنے ایک بوڑھے کو افسردہ دیکھا پوچھنے پر بتایا ۔۔۔بیٹا! کسی نے کہا تھا کہ آٹا آرہا ہے گھی پیکچ پہ مل رہا ہے لیکن بیٹا! آٹا آ نہیں رہا ۔پیکچ بند کیا گیا ہے اور یوٹیلٹی سٹور میں ایک کلو گھی کی قیمت 490 روپے ہے اور عام دکانوں میں 430 ہے بوڑھے کی آنکھوں میں سوال تھا کہ یہ یوٹیلٹی سٹورز کس درد کی دوا ہیں یہ تو فلاحی حکومت کنٹرول ریٹ پر سب سیڈی دے کر غریبوں کو اشیاۓ خردو نوش مہیا کرتی تب اس کی افادیت تھی یہ تو نرے کھال اتاری سنٹر ہیں ۔۔ ہم پہ افتاد پڑی ہے ہم ہر لحاظ سے نا اہل ہوتے جارہے ہیں ۔ایسا ہوتا ہے عوام کو ”
کالانعام “ کہا گیا ہے لیکن اس کو ترتیب سیکھانے کے لیے وساٸل مہیا ہیں اس کو ٹریک پر ڈالنے کے لیے افراد موجود ہیں مگر ایسا کچھ ہوتا نہیں۔ آٹا مہیا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آٹا سچ میں غریبوں کو اسانی سے مل جاۓ ایسا نہیں کہ آٹا حاصل کرنے کی جستجو میں کوٸی جان سے چلی جاۓ ۔چترال بڑا پر امن ہوا کرتا تھا یہاں پہ عورت کسی زمانے میں کماٶ فرد نہیں تھی گھر گرستی اس کی ذمہ داری تھی ۔۔گھر سے باہر نہیں نکلتی آج وہ آٹا لینے ہجوم میں کھڑی ہے اس کی عظمت اس کی عزیمت خود اس کے ہاتھوں مجبور ہے شاید اس کے گھر میں آٹا نہیں ہے وہ مجبور ہے اگر کوٸی مناسب انتظام ہوتا تو آٹے کا یہ تھیلا اس کے گھر کی دہلیز پر پہنچایا جاتا ۔اب بھی ایک حد تک کوشیشیں ہو رہی ہیں مختلف علاقوں میں آٹا پہنچایا جا رہا ہے مگر تقسیم کی شکاٸتیں سامنے آتی ہیں کہ بعض حقدار محروم ہوتے ہیں ۔بات پھر ہجوم کی آجاتی ہے اگر ہم میں انسانیت جاگ جاۓ تو ایسا نہیں ہوگا ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔