دھڑکنوں کی زبان۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔مجھے پھر ہچکی آئی۔

میری تنخواہ بڑھانے کی نوید مجھے سناٸی گٸی ۔مجھے بتایا گیا کہ میری اپگریڈیشن ہوگی مجھے آگے کی گریڈ ملے گی چند منچلوں نے مبارک باد تک دی ۔مجھے بتایاگیا کہ اشیاۓ خوردو نوش پر سبسیڈی دی جاۓ گی ۔قیمتوں پر کنٹرول ہوگا ۔۔ملک کی جی ڈی بی بڑھے گی خود انحصاری کا عزم ہوگا ۔درآمدات میں کمی ہوگی خود اپنی مصنوعات کا استعمال ہوگا ۔افراط زر پر قابو پایا جاۓ گا ۔شاہ خرچیاں کم ہونگی ۔ٹیکس کا نظام درست کیا جاۓ گا کرپشن کا خاتمہ ہوگا ۔ملک کی ترقی اولین ترجیح ہوگی ۔انصاف کا بول بالا ہوگا قوم کا وقار بلند کیا جاۓ گا ۔یہ وہ وعدے ہیں جو سیاسی پارٹیاں اور سیاسی نماٸندے قوم کے ساتھ کرتے آۓ ہیں ۔یہ وہ نعرہ دلپزیر ہیں جو قوم سنتی آٸی ہے لیکن انتظار کر رہی ہے کہ کب ان کے پورے ہونے کا وقت آۓ ۔تعمیراتی کام ایک حکومت شروع کرتی ہے دوسری آتی ہے تو ان کا نام و نشان مٹا دیتی ہے ۔پالیسیاں بنتی ہیں لیکن اطلاق کا مرحلہ کبھی نہیں آتا ۔یہ بیروکریٹکس کی میزیں بھی عجیب ہیں یہ فاٸل رکھنے کے لیے ہیں سارا دن فاٸلیں ان پہ پڑی رہتی ہیں پھر ریگوں اور الماریوں میں ٹھونسی جاتی ہیں ۔نوکری کا آخری عشرہ ہے لے دے کے اپگریڈیشن کی ایک خبر آٸی تھی پھر ہچکی آٸی سمجھے کہ ہمارے بارے میں کہیں بات ہورہی ہے شوشہ آیا ہم ایسا نہیں کر سکتے” خزانے پر بوجھ ہوگا “ ۔بیروکریٹس اور پارلیمنٹیرین کی مراعات بڑھاٶ خزانے پر کوٸی بوجھ نہ ہوگا ۔ہچکی آٸی کہیں پہ ہمارا ذکر خیر ہو رہا ہے ” پنشن اصلاحات لاٶ “ خزانے پر بوجھ کم کرو مگر ججز، بیرکریٹس، محافظیں، سنیٹرز کی پنشن مراعات اور زیادہ کرو خزانے پر کوٸی بوجھ نہیں ۔کرپشن کی روک تھام کی کوٸی ضرورت نہیں یہ خزانے پر کوٸی بوجھ نہیں مردم شماری، الیکشن اور امتحانی ڈیوٹی کے معاوضے کم کرو یہ خزانے پر بوجھ ہیں ۔ہچکی آٸی کہیں ہمارا ذکر خیر ہو رہا ہے ۔۔یوٹیلٹی سٹور پر پیکیچ اور اشیا پر سبسیڈی ختم کرو خزانے پر بوجھ ہے لیکن سرکاری اہلکاروں کو بھاری تنخواہ مراعات قیمتی گاڑیاں مفت پیٹرول اور مفت بجلی دے دو یہ خزانے پر کوٸی بوجھ نہیں ۔خبر آٸی یہ عید سے پہلے تنخواہیں دے دو بچارے عید کی خریداری کریں گے۔۔خبر سن کر سب کے چہروں پر رونق آگٸی تھی بعض نے قرضیں بھی لینا شروع کیا تھا ۔ہچکی آٸی سمجھے کہ کچھ ہورہا ہے خبر آٸی کہ خزانہ خالی ہے تنخواہیں نہیں ہوسکتیں ۔یہ ہماری ہچکیاں اور ان کے پیچھے خبروں نے ہمیں ہلکان کر دیا ہے ہر طرف مایوسیاں پھیل رہی ہیں۔ سیاسی بیچینیاں ہیں۔ افراتفری ہے۔ اس سمے ایک عام آدمی کی کیا سوچ ہوگی ۔ملک اس کا ہے۔ لوگ اس کے ہیں ۔حکمران اس کے ہیں لیکن بیچینیاں پھیلانے والے بھی یہی ہیں ان کی انانیت، ان کا ہوس اقتدار اور طاقت کے نشے نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے ۔یہ ہمیں احساس ہے کہ اغیار کی پوری توجہ ہماری طرف ہے باقی مسلم دنیا ان کا تر نوالا ہے ۔ہم میں بے چینیاں پھیلا کر، ہماری معیشت برباد کرکے، ہمیں مقروض بنا کر، ہم میں آپس میں دوریاں پیدا کرکے ہی وہ ہمیں کمزور کر سکتے ہیں ورنہ ہماری فوج محاظ پہ لڑے گی قوم سیسہ پلاٸی ہوٸی دیوار ہوگی ہمیں نیست و نابود کرنا آسان کام نہیں۔ سیہونی ایجنڈے ،ہندوٶں کے ایجنڈے، مغربی ایجنڈے، سارے کفار کے ایجنڈے اسی ایک نکتے پہ قاٸم ہیں کہ یہ قوم امت کی نماٸندگی کا اہل ہے اس کی بنیادیں ہلا دی جاٸیں ۔لیکن یہ بات ہوس اقتدار کے بھوکوں کو کون سمجھاۓ وہ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن طاقت کا نشہ ایک بار چھڑے اترتا نہیں ہے ۔ہر افطاری کے وقت اللہ کے حضور گڑگڑاکے دعا کریں کہ اللہ دشمنوں کے شر سے ہمیں محفوظ کرے ورنہ کفار کاواحد ایجنڈا ہم ہیں۔۔۔ہر روزہر لمحے ہم ان کے ایجنڈے میں شامل ہیں ۔۔۔ہمیں ہچکی آنی چاہیۓ ہمیں احساس ہونا چاہیۓ ۔۔۔کہ ہماری بربادی کے مشورے ہو رہے ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔