کاروبارزندگی کا مرکزی کردار۔۔۔محمدشریف شکیب
کہتے ہیں کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ وہ اگر ہم وزن اور ایک دوسرے کے مدد گار ہوں تو زندگی کی گاڑی پرسکون انداز میں چلتی رہتی ہے۔ ایک پہیے میں ہوا زیادہ اور دوسرے میں کم ہو۔تو توازن بگڑ جاتا ہے۔اس لئے دانا لوگ کہتے ہیں کہ شادی بہت دیکھ بھال اور چھان پھٹک کے بعد کرنی چاہئے۔ شادی کرنا مرد اور عورت دونوں کی زندگی کا انتہائی نازک اور اہم موڑ ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی ہو۔تو زندگی خوشگوار ہوتی ہے اگر انداز فکر جدا جدا ہو تو روز لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی اجیرن ہوتی ہے بلکہ ان کے بچوں پر بھی گھریلو ناچاقی کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر میاں بیوی جھگڑالو ہوں تو پڑوسیوں کا سکون بھی غارت ہوتا ہے۔ انسان پڑوسی نہیں بدل سکتا اگر گھر کے پہلو میں پانی پت کی لڑائی مستقل چل رہی ہو۔ تو اپنے گھر میں بھی اس کے جراثیم پہنچ ہی جاتے ہیں۔عام طور پرگھریلو جھگڑوں کی ذمہ داری عورت پر ڈالی جاتی ہے۔ہمارے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ عورت کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ایک قسم ہاورت کی ہوتی ہے جواگرچہ شکل و صورت میں مناسب اور کام کاج میں اچھی ہوتی ہے تاہم روز لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔ کبھی ماں باپ کے ساتھ، کبھی بھائی بہنوں اورشوہرکے ساتھ، کبھی بچوں اور پڑوسیوں کے ساتھ اس کالانجہ ہوتا ہے۔عورت کی دوسری قسم کو اف رت کہاجاتا ہے۔جو نہ شکل و صورت میں اچھی ہوتی ہے نہ ڈھنگ کے کام کاج کر پاتی ہے۔اور عورت کی تیسری قسم نایاب قسم ہے وہ حقیقی معنوں میں عورت ہوتی ہے۔ موہنی صورت والی، کفایت شعار، سلیقہ مند اور باادب ہوتی ہے اور اس قسم کی عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔دنیا کے بیشتر دانا لوگوں کا ماننا ہے کہ عورت کے کردار کی تعمیر مرد کے ہاتھ میں ہے۔اگر مرد اسے عزت کا مقام دے، ہرکام میں اس سے مشاورت کرے، اسے لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تلقین کرے،اس کی تمام جائز ضروریات پوری کرے اسے بااختیار ہونے کا احساس دلائے۔اس کے ساتھ اپنے مسائل شیئر کرے اسے ہر مشکل وقت میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائے تو عورت بری نہیں بن سکتی۔شوہر کارویہ، رشتہ داروں کا برتاؤ، لوگوں کی باتیں، نامساعد حالات، تنہائی کا احساس اور بے بسی عورت کو بدمزاج، بداخلاق، بے مروت، جھگڑالو اور ناپسندیدہ بناتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا کی تمام تر رعنائی، حسن اور خوبصورتی عورت کی بدولت ہے۔تمام بڑے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ گھر میں رونق، سلیقہ مندی، امن و سلامتی، خوشیاں اور شادمانیاں ماؤوں، بہنوں اور بیٹیوں کی بدولت ہے۔ان کا ساتھ ہو تو وطن سے دور ہوکر بھی انسان خود کو اپنے گھر میں محسوس کرتا ہے اور ان کے بغیر چمن بھی ویران لگتا ہے۔عورت نہ ہوتی تو ننانوے فیصد شاعری اور افسانے نہ ہوتے۔عورت کوصنف نازک اس لئے نہیں کہا جاتا کہ اس کی جسمانی ساخت مردوں کے مقابلے میں نازک اور کمزور ہوتی ہے۔ ہم نے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محنت و مشقت کرتے دیکھا ہے۔ عورت صبح سویرے گھر والوں سے پہلے اٹھتی ہے اور رات کو سب سے آخر میں کام کاج نمٹا کر سوجاتی ہے۔کوئی مرد کا بچہ اتنی طویل مشقت کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔اتنی مصروفیت اور خجل خواری کے باوجود اسے تعریف کے دو جملے بھی نہیں ملتے۔پھر بھی وہ اس بے حسی کی پروا نہیں کرتی۔ اللہ تعالی نے عورت میں تکلیف اٹھانے، دردسہنے، صبروقناعت اور پیار محبت کرنے کی مردوں کی نسبت سات گنا زیادہ صلاحیت رکھی ہے۔اگر مرد صرف اتنا کہے کہ آج کھانا بڑے مزے کا پکا ہے۔تو عورت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اپنی ساری مشقت اور تھکان بھول جاتی ہے مگر نوے فیصد مردوں کو یہ دو بول کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔صنف مخالف ہونے کے ناطے مرد اور عورت کے درمیان مقابلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک یہ مقابلہ جاری رہے گا۔لیکن عورت کیلئے ایک عورت ہی آستین کا سانپ ثابت ہوتی ہے۔ سنجیدہ خواتین خود اعتراف کرتی ہیں کہ عورت کی دشمن مرد نہیں بلکہ عورت ہی ہے۔ مرد بیچارہ مفت میں بدنام ہے۔ عورت سوتیلی ماں، ساس، نند اور سوتن کے روپ میں اپنی ہم جنس پر عرصہ حیات تنگ کرتی ہے۔اور پھر عورت کی مظلومیت کا رونا بھی روتی ہے۔داماد اگر اس کی بیٹی کی عزت کرے تو اسے فرمانبردار قراردیتی ہے۔بیٹا اگر اپنی بیوی کی بات کی لاج رکھے تو اسے زن مرید کا خطاب دیتی ہے۔ عورت کی ان عادتوں اور باتوں کا برا نہیں منانا چاہئے کیونکہ زندگی اسی شور شرابے اور محاذ آرائی کانام ہے۔