غریبوں کی محنت پر عیاشی..محمد شریف شکیب
ہمارے ایک عزیز نے کچرے کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے والے ایک بچے کا واقعہ سنایا کہتے ہیں کہ وہ صبح سویرے دروش بازار سے گزر رہا تھال۔دکانیں بند اور بازار میں ہو کا عالم تھا۔ 10 سال کا ایک بچہ پلاسٹک کی بڑا تھیلا اٹھائے دکانوں کے باہر پڑے جوتوں کے خالی ڈبے چن رہا تھا۔اس کی خوشی دیکھ کر ایسا لگ رھا تھا کہ اسے خالی ڈبے نہیں بلکہ قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ وہ اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ رمضان مبارک کی علی الصبح جس وقت یہ بچہ اپنے خاندان کے لئے رزق تلاش کر رہا تھا۔ اس وقت ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے اس عمر کے بچے اٹھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ بچہ اگر پورا دن ڈبے اور کاغذ کے ٹکڑے جمع کرکے زیادہ سے زیادہ 500 روپے ہی کماتا ہوگا۔شام کو انہی پیسوں سے پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوست کریگا۔
یہ بچہ اسٹاک ایکس چینج کے اتار چڑھاؤ سے بے خبر ہے- جی ڈی پی گروتھ کی مثبت یا منفی رجحانات کے بارے میں بھی نہیں جانتا۔ سپریم کورٹ کا بنچ بار بار ٹوٹنے سے بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پی ڈی ایم کی 84 رکنی کابینہ کے نام بھی اسے نہیں آتے۔اسے اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق 90 دنوں کے اندر ہوتے ہیں۔یا 10 سال تک کوئی انتخابات نہیں ہوتے۔مگر وہ صرف یہ جانتا ھے کہ کچرے کے ڈھیر سے اس نے اپنی ضرورت کے جو کباڑ اسے چنا ہے۔انہیں بیچ کر 500 روپے میں وہ اپنے گھر کے لئے جو اشیائے خوردونوش خریدے گا۔اس پر اسے 90 روپے جنرل سیلز ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کر کے کسی سے شکوہ کئے بغیر اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔ اگر 22 کروڑ آبادی کے نصف لوگ یعنی 11 کروڑ لوگ اسی بچے کے اخراجات کے برابر 500 روپے روزانہ خرچ کریں۔ اور 18فیصد کے حساب سے 90 روپے جنرل سیلز ٹیکس ادا کریں تو ایک دن میں تقریباً 10 ارب روپے اور ایک سال میں 3650 ارب روپے جمع ہوتے ہیں۔ جو ہمارے سالانہ بجٹ کا 40 فیصد بنتا ہے۔یہ صرف 90 روپے سیلز ٹیکس کا حساب ہے اگر ایک ہزار کی آپ روزانہ خریداری کریں گے تو 180 روپے جی ایس ٹی دیں گے اور اس سے جمع ہونے والی رقم 80 فیصد بجٹ کے مساوی بنتا ہے۔ جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بھی حساب کیا جائے تو اتنی رقم بنتی کہ ہمارے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہیں بنتی۔کچرے کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے والے بچے جب جی ایس ٹی کی شکل میں حکومت کو بلا حیل و حجت ٹیکس دیتے ہیں تو حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان چھوٹے ٹیکس گزاروں کے مفادات کا خیال رکھے مگر وطن عزیز میں یہ دستور رائج ہے کہ دن بھر محنت مزدوری کرنے والے اپنے حکمرانوں اور اعلی افسروں کو عیاشیاں کراتے ہیں۔جب ملک پر برا وقت آتا ہے تو کھرب پتی، ارب پتی ور کروڑ پتی ارباب اختیار اسی کچرا چننے والے سے ہی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں۔شاید سی ظلم اور ناانصافی کا شاخسانہ ہے کہ یہ قوم پے درپے آزمائشوں سے نکل ہی نہیں پاتی۔