مچھروں کا موسم۔۔۔محمد شریف شکیب

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا، امراض قلب، ایڈز اور دیگر مہلک امراض کے مقابلےمیں کہیں زیادہ لوگ ملیریا سے ہلاک ہوتے ہیں۔ملیریا والا مچھر دنیا کےہر ملک میں وافر تعداد میں پایاجاتا ہے۔یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ انسان کے ناک میں دم کردیتا ہے۔ اس کے لئے مسلمان ، ہندو،سکھ ، عیسائی ، یہودی ، آتش پرست اور دہریہ سب کا خون حلال ہے۔ اورہر مذہب، نسل، قومیت ،رنگ اور زبان سےتعلق رکھنےوالےلوگ اس ننھے مخلوق سے نالاں ہیں۔اس کا مقابلہ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں مگر مچھروں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی۔اپنے سامنے ہم جنس کو مرتے دیکھ کر بھی وہ پسپاہونےکوتیار نہین ہوتے اور بڑھتے چلےجاتے ہیں۔اسے مارنے اور خودسے دور رکھنے کے لئے طرح طرح کے مصالحہ جات بھی تیار کئے جاتےہیں کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں ۔ لیکن ان کے پاس ہر وار کا جواب ہوتا ہے۔ان کی دیدہ دلیری بھی مثالی ہے۔پیٹھ پیچھے حملہ نہیں کرتے بلکہ علی الاعلان نعرے لگاتے ہوئے حملہ آور ہوتے ہیں۔ان کا ایک نعرہ مستانہ انسان کی رات کی پوری نیند حرام کردیتا ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ امیر، غریب، ادنیٰ،اعلیٰ، بچوں،بوڑھوں، عورتوں، مردوں میں کوئی امتیاز نہیں برتتا۔سب کے ساتھ ایک جیسا جارحانہ سلوک کرتاہے۔انسان ہی نہیں، جانور بھی ان کی ایذا رسانی سےمحفوظ نہین رہتے مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں۔مردوخواتین نے ہردور میں مچھروں کے خلاف محاذ آرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر شخص اپنی سمجھ ،عقل اور فہم و فراست کے مطابق مچھروں پر الزام لگاتا اور ان کے خلاف راہ عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔مگرمچھرکسی محلاتی سازش کی پروا نہیں کرتا۔طاعون جیسی مہلک مرض نے تباہی مچائی تو انسان نے یہ الزام بھی مچھر اور پسو کے سر باندھ دیا۔ملیریا کامرض پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پرلگادیا گیااور مچھروں کی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنائے گئے۔مگر سارے منصوبے دھرے ہی رہ گئے۔مچھر کو بھی اپنی بقاء کی فکر رہتی ہے اور وہ انسانوں کی طرف سے اپنے خلاف سازشون کو دیکھ سن رہاہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ انسان جب اپنے سے زیادہ چالاک اور طاقتور کے سامنے بے بس ہوتا ہے تو پھر اسے برا بھلا کہتا ہے۔مچھر کو بھی انسان بڑا کم ذات قرار دیتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق کوڑے ،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی جگہ زندگی بسر کرتا ہے اوربزدل اتنا ہے کہ اس وقت حملہ کرتاہے جب کہ انسان سو جاتے ہیں۔ اورسوتے انسان پر وار کرنا،مردانگی نہیں بلکہ انتہا درجے کی کمینگی ہے۔دوسری جانب مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اورکہتا ہے کہ برا بھلا کہنے کے بجائے ہمت ہے تو مقابلہ کرو۔ ذات صفات مت دیکھو۔مچھرکالا سہی،بدرونق سہی ، نیچ ذات سہی اور کمینہ سہی۔مگرہماری ہمت اور جرات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتاہم پہلے للکارتے اور پھر حملہ کرتے ہیں۔کان میں آکر ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیتے ہیں کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اب حملہ ہوتا ہے۔خود کو بچاسکتے ہو تو بچالو۔اپنے بھائی نمرود کا قصّہ بھول گئے جو خدائی کا دعویٰ کرتاتھا اور اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔کس نے اس کا غرور توڑا۔کون اس پرغالب آیا۔ کس کے سبب اس کی خدائی کے دعوے خاک میں مل گئے؟ہم دن بھر اپنے خلوت خانے میں رہتے ہیں رات کوخدا کی یاد کا وقت آتا ہے توباہر نکلتے ہیں اور پھر تمام شب تسبیح و تقدیس کے ترانے گایا کرتے ہیں آدمی غفلت میں پڑے سوئے رہتے ہمارا انسان کو کاٹنے کا کوئی خاص شوق نہیں۔ سونے والے کے کان میں جاکر یہی کہتے ہیں کہ اُٹھو جاگو ۔جاگنے کا وقت ہے اپنے خالق کویاد کرو، ان کی نعمتوں کا شکر اداکرو۔کچھ کام کاج کرو۔کیونکہ جو سوتےہیں وہ کھوتےہیں۔مگر انسان ہماری اس سریلی نصیحت کی پروا نہیں کرتا اور سوتارہتا ہے ہم مجبور ہو کر اس کے چہرے اور ہاتھ پاؤں پر ڈنگ مارتے ہیں۔ یادرہے کہ ہمارا نام مچھر بھی آپ لوگوں نے رکھا ہے۔ہمارا عزم ہے کہ انسان کوچین سے جینے نہیں دیں گے۔اور بتادیں گے کہ کمین اور نیچ ذات اعلیٰ ذات والوں کو کیسے پریشان اور بے چین کرسکتی ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔