چترال شندور روڈ منصوبے کا خاتمہ…محمد شریف شکیب
پاکستان کے شمال مغرب میں جغرافیائی اور دفاعی لحاظ سے اہم شاہراہ چترال شندور روڈ کی تعمیرکا اہم منصوبہ ختم کردیا گیا۔ منصوبے پرکام میں مصروف مشینری واپس منگوالی گئی۔153کلو میٹر طویل چترال شندور روڈ کی چوڑائی سات میٹر تھی جسے 30میٹر تک چوڑا کرنے کے لئے اضافی زمین کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔ چترال سے بونی تک سڑک کو توسیع دینے کے لئے تارکول بھی اکھاڑ دیا گیا تھا۔ایک اہم منصوبے کو ایس ٹو کا نام دیاگیا تھا۔منصوبے کو دو سال کے عرصے میں چار مرحلوں میں مکمل ہونا تھا۔پہلا مرحلہ 39کلو میٹر چترال پریت سیکشن، دوسرا 40کلو میٹر پریت بونی سیکشن، تیسرا38کلو میٹر بونی شیداس سیکشن، چوتھا اور آخری مرحلہ 35کلو میٹر شیداس شندور سیکشن تھا۔منصوبے میں 23پل بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 17ارب روپے لگایاگیا تھا تاہم تعمیراتی سامان مہنگا ہونے کی وجہ سے نظر ثانی شدہ تخمینہ لاگت 21ارب روپے لگایاگیا۔ یہ منصوبہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ لواری ٹنل کی تکمیل کے بعد چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے سال بھر رابطہ برقرار رہتا ہے۔ شندور سے غذر، ہنزہ اور گلگت کے راستے اس سڑک کو شاہراہ ریشم کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ اور یہ سی پیک کے متبادل روٹ کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ مستوج سے بروغل تک سڑک کی توسیع کی صورت میں یہ شاہراہ واخان کی پٹی کے ذریعے وسطی ایشیاء تک آسانی سے جاسکتی ہے جس کی بدولت پاکستان کا سینٹرل ایشیاء سے براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوگا۔یہ شاہراہ چترال ٹاؤن سے شمال مشرق کی سمت چیو پل سے شروع ہوتی ہے۔ راستے میں درجنوں دیہات سے گزرتی ہے جن میں دنین، کاری، راغ، استانگول،موری لشٹ، مروئی، برنس، شاچار، گرین لشٹ، ریشن، زئیت، کوراغ،چرون، جنالی کوچ، بونی، آوی، پرواک، سرغوز، مستوج، شیداس، گشٹ، ہرچین، بالیم اور سور لاسپور شامل ہیں۔ مستوج سے دوسری سمت پرراستہ بروغل جاتا ہے جہاں سے صرف پچیس کلو میٹر واخان کی پٹی عبور کرنے کے بعد وسطی ایشیاء تک پہنچا جاسکتا ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کے ذخائر سے مالامال وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں سے نہایت سستے داموں گیس اور تیل حاصل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ چترال شندور روڈسات لاکھ کی آبادی،دو اضلاع اور ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی وادی کی تعمیر و ترقی کے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کو شاہراہ قراقرم کا متبادل راستہ مل جائے گا۔ بلکہ یہاں کے پہاڑوں میں موجود معدنی دولت سے استفادہ کرکے ملک کو چند سالوں کے اندر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیاجاسکتا ہے۔ قدرت نے اس خطے کو معدنی وسائل سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ یہاں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہاں اینٹی منی، زمرد، عقیق، لاجورد، جپسم، یاقوت، شیلائیٹ اور سنگ مرمر کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں جن سے آج تک استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے منصوبہ سازوں اور حکمرانوں کی ترجیحات میں پسماندہ علاقوں کی ترقی، عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا کبھی نہیں رہا۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں قومی اہمیت کے منصوبوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔چترال شندور روڈنہ صرف چترال اور خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک کی ترقی کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس اہم منصوبے کا بیک جنبش قلم خاتمہ علاقے کی سات لاکھ آبادی کے منہ سے نوالہ چھیننے اور ان کے معاشی قتل کے مترادف ہے جس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر آواز اٹھانی چاہئے۔ چترال جیسے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوتی رہی ہے۔ مگر اس بارصورتحال مختلف ہے۔ وہاں شرح خواندگی 88فیصد ہے۔ ہر بچے، بوڑھے، جوان،مرد اور عورت کے ہاتھ میں موبائل فون ہے ہر شخص کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔ لوگ اپنے فرائض اور حقوق سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے معاشی قتل کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اور اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پرنکل آئیں گے۔ ایسی صورت میں امن عامہ برقرار رکھنا حکومت اور انتظامیہ کے لئے مشکل ہوسکتا ہے۔