دادبیداد۔۔۔تمہیں یا د ہو کہ نہ یا د ہو۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سما جی زند گی میں وقت کی رفتار اور ٹیکنا لو جی کے استعمال کے ساتھ نت نئے مسائل جنم لے چکے ہیں پہلے ایسا ہوتا تھا کہ شہروں کی چکا چوند میں اگر کسی نو جوان نے گاوں کے کسی بزرگ کو نہیں پہچانا تو وہ بزرگ واپس گاوں جا کر شکا یت کرتا تھا کہ فلان کے بیٹے نے مجھ سے کہا میں نے آپ کو پہچا نا نہیں حا لانکہ وہ اسی گاوں میں پا نچویں جما عت پاس کر کے شہر گیا تھا پھر آہستہ آہستہ ایسے واقعات سننے میں آئے کہ شہر میں رہنے والے نو جوان نے گاوں سے آنے والے اپنے ہم عمر نو جوان سے کہا معاف کرو آپ کو پہچانا نہیں اور وہ نا راض ہو گیا حا لا نکہ گاوں میں وہ مو نچھوں والا مشہور تھا اب اُس نے داڑھی رکھ کر مو نچھو ں کو صاف کیا تھا 20سال بعد پہچا ننے میں غلطی ہو سکتی تھی اور پہچا ننے میں غلطی کا ازالہ کر نے کے لئے ملا قاتی سے پو چھنا معیوب بھی نہیں ہو تا ترقی یا فتہ سما ج میں ملاقاتی خود اپنا تعارف کر اتا ہے ہمارے معا شرتی رویوں میں یہ بات شامل نہیں ہے شہری اور دیہا تی زند گی میں جان پہچان میں ابہام اور غلطی کے مسا ئل روز مرہ زندگی میں باربار پیش آتے ہیں سیا سی رہنما وں کے لئے ایسے مسا ئل بہت پیچیدگیاں پیدا کر تے ہیں انتخابی مہم میں سیاسی کارکن یا سیاسی جماعت کا امیدوار لا کھوں لو گوں سے ملتا ہے ہر ایک کا چہرہ اور نا م یا درکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے سال دو سال بعد کوئی بندہ سامنے آکر کہے کبھی ”ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یا دہو کہ نہ یا د ہو“ تو سیا ستدان ہکا بکا ہو جا تا ہے لیکن وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ میں نے تمہیں نہیں پہچانابلکہ ملا قاتی کو باتوں میں الجھا کر ایسے سوالا ت پو چھتا ہے جو ملا قا تی کے علا قے، اس کے گاوں اور اس کے کنبے تک کی معلومات دینے میں معا ون ہو تے ہیں اس طرح سیا ستدان تھوڑا وقت لگا کر ملا قا تی کو پہچان لیتا ہے اور اپنی کمزوری اس پر ظا ہر ہونے نہیں دیتا اکثر اوقات یہ مسئلہ اساتذہ کو بھی پیش آتا ہے ایک استاذ کئی جگہو ں پر ڈیوٹی دیتے ہوئے ہزاروں طلبہ کو پڑھاتا ہے جو طالب علم اُس کے کمرہ تدریس میں نہیں ہو تے وہ بھی اس کو پہچانتے ہیں اور استاد کی نظر سے دیکھتے ہیں قدر اور عزت و تکر یم سے پیش آتے ہیں ان میں سے ہرطالب علم یہ توقع رکھتا ہے کہ جہاں ملوں گا جس حال میں ملوں گا استاد مجھے پہچان لے گا لیکن یہ توقع بسا اوقات پوری نہیں ہوتی تو طالب علم شکایت لگاتا ہے کہ استاد نے مجھے نہیں پہچانا طالب علموں کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہو تی ہے کہ استاد دما غی طور پر غیر حاضر مشہور تھا کبھی کمرہ جماعت میں چھڑی،کبھی ٹو پی، کبھی عینک اور کبھی کتاب بھول جا تا تھا وہ دس سال بعدا پنے شاگرد کے نام اور حلیے کو آسانی سے تو یاد نہیں رکھ سکیگا اگر کوئی یاد رکھتاہے تو اچھی بات ہے قابل تقلید ہے اور کوئی اگر یاد نہیں رکھ سکتا تو گلہ، شکوہ اور شکایت بجا نہیں سما جی اور معا شرتی زند گی میں اتنے بکھیڑ ے پیدا ہوئے ہیں کہ آدمی خود اپنا نام بھی مشکل سے یا درکھ سکتا ہے بقول ساغر صدیقی ”احباب کی چاہت کیا کہیئے کچھ یادرہی کچھ بھول گئے“ مو بائیل فون، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد سماجی رابطوں کا ایسا طوفان امڈ آیا ہے کہ الا ما ن والحفیظ آپ کے پا س اگر پا نچ ہزار نمبر بھی محفوظ ہوں توکام نہیں چلتا نا معلوم نمبروں سے روابط ہو جاتے ہیں فون اٹھا تے ہی آپ پرحملہ ہو تا ہے کہ آپ نے مجھے پہچانا یانہیں؟ آپ اگر جھوٹ موٹ اثبات میں جواب دیں گے تو بات کو سمجھنا مشکل ہو گا آپ اگر نفی میں جوا ب دیں گے تو وہی گلہ شکوہ شروع ہو جا ئے گا کہ آپ ہمیں پہچا نتے بھی نہیں ہو کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یا د ہو ٹیلیفون پر نا معلوم نمبر سے آنے والی آواز آپ کو عجیب مخمصے میں ڈالتی ہے بعض اوقات مر دانہ اور زنانہ آواز میں تمیز کرنا بھی مشکل ہوتاہے، زبان کا مسئلہ بھی درمیان میں آکر آپ کو مزید الجھنوں میں ڈال دیتا ہے بہت کم لو گ ایسے ہو تے ہیں جو ہیلو کے ساتھ اپنا تعارف کر کے بات شروع کر تے ہیں زیا دہ لو گ آپ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں سوشل میڈیا میں کسی وفات پانے والی شخصیت کے لئے تعزیت کر تے ہوئے سب سے پہلے خبر دینے والا مرحوم کا نام اور گاوں کا نام لینا گوارا نہیں کرتا مشہور شخصیت یا ہر دلعزیز شخصیت لکھتا ہے تو پڑھنے والا حیراں رہ جا تا ہے کہ کون وفات پا گیا؟ تمہیں یا د ہو کہ نہ یا د ہو یہ سب دور جدید کے ایسے سماجی مسا ئل ہیں کہ سر چکرا جا تا ہے۔