داد بیداد۔۔۔ساد گی میں سہو لت ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

سو شل میڈیا پر ایک ساتھ دو خبروں نے ہمیں چونکا دیا پہلی خبر میں بتا یا گیا ہے کہ ایک گاوں میں 80گھرانوں کی آبادی نے فیصلہ کیا کہ فوتگی اور غم کے لمحات کو ساد گی سے منا یا جا ئے گا، باہر سے کوئی فاتحہ خوانی کے لئے نہیں آئیگا ہم بھی گاوں سے باہر فاتحہ خوانی اور پُر سہ دینے کے لئے نہیں جا ئینگے با ہر سے کوئی ہمارے ہاں آنے کی زحمت نہ کرے اور باری آنے پر ہماری غیر مو جود گی اور غیر حا ضری کا گلہ نہ کرے دوسری خبر میں بھی اسی نو عیت کا اتفاق رائے ظا ہر کیا گیا ہے خبر میں بتا یا گیا ہے کہ 110گھرانوں والے گاوں کے مکینوں کا بڑا جلسہ ایک درخت کے نیچے کھلے میدان میں منعقد ہوا جلسے میں ہر کنبے کے سر براہ نے شرکت کی جلسے میں اتفاق رائے سے طے پا یا کہ آئیندہ شادی کی تقریبات کو ساد گی سے منا یا جا ئے گا دُلہا اور دلہن کے خا ندان مل کر اس کو ساد گی کا جا مہ پہنا ئینگے، دلہن کے ماں باپ سے جہیز کا مطا لبہ نہیں کیا جا ئے گا دلہا کے لئے مہر کی رقم مزدور کی ایک ما ہ کی مزدوری کے برابر رکھی جا ئیگی اور ولیمہ صرف قریب کے 10گھرانوں کو دیا جا ئے گا نہ دلہا کے ماں باپ پر بوجھ ہو گا نہ دلہن کے ماں باپ کو مقروض کرنے کی نو بت آئیگی شادی میں دعوتیں اڑانے اور مبارک باد دینے کے لئے ایک گاوں سے دوسرے گاوں جا نے پر پا بندی ہو گی شامیانہ، فرنیچر، باور چی، دیگ اور کرا کری کی ضرورت نہیں ہو گی دونوں خبروں نے دل و دماغ کی رگوں میں ارتعاش پیدا کیا اور ہم سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ”ایسی چنگا ری بھی یا رب اپنی خا کستر میں تھی“ دونوں دیہات میں یہ تحریک کسی سیا ستدان یا کسی مذہبی اور روحا نی شخصیت نے نہیں اُٹھا ئی بلکہ سیدھے سادے نو جوانوں کی فلا حی تنظیموں نے اس کا م کا بیڑاا ٹھا یا اور اسے کا میاب کر کے دکھا یا نو جوانوں نے جب دیکھا کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے ترقی یا فتہ دنیا میں لو گ اپنی فاضل آمد نی غریبوں کی مدد، بچوں اور بچیوں کی تعلیم پر خر چ کر تے ہیں جس سے معا شرے کا بھلا ہو تا ہے ہمارے ہاں لو گ 100سا ل پہلے کی طرح شادی اور غم و رنج و اندوہ کے لمحا ت پر اپنی فاضل امدنی فضول رسموں پر لٹا تے ہیں جن کے پا س آمدن کے ذرائع نہیں ہیں وہ سودی قرضے لیکر فضول رسومات پر خر چ کر کے بقیہ عمر سود کی آدائیگی میں گذار دیتے ہیں یہ رسومات معا شرے کے لئے نا سور بن جاتے ہیں ان فضول رسومات کی وجہ سے خو د کُشیاں ہو تی ہیں نو جوا نوں نے محسوس کیا کہ 10کلو میٹر یا 100کلو میٹر دور سے گاڑی لیکر فاتحہ خوانی کے لئے آنے والے راستہ بھر مو سیقی سنتے ہیں غم والے گھر میں دو منٹ کا پرسہ دیکر خوشی خو شی جھو متے ہوئے واپس جا تے ہیں لو گ آنے جا نے پر مہینہ بھر کے راشن کی قیمت فضول رسم کی وجہ سے لٹا دیتے ہیں ہمارے مذہب نے ایسی فضول رسومات سے ہمیں منع کیا ہے اور سادگی سے زند گی گذار نے کی تعلیم دی ہے ہم نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ان رسومات کا دائرہ اتنا وسیع کیا ہے کہ 10لا کھ روپے اگر حج پر جا نے کا خر چہ ہے تو اس کے بر ابر رقم حج کے لئے رخصت ہو تے وقت اور حج سے واپس آتے وقت گاڑیوں کے جلو س اور مہما نوں کی دعوت و تواضع پر خر چ ہو تی ہے اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلان نے حج پر جا نے کا ارادہ کیا تھا مگر نہ جا سکا کیونکہ حج کا خر چہ جو ڑ لیا تھا مہما نوں کی آوبھگت اور توا ضع کا خر چہ اُس کے پا س نہیں تھا یہی حا ل عمرے کا بھی ہے عبادت میں رسوم کی پا بندی عبادت سے روکنے کا باعث بنتی ہے جیسا کہ غا لب نے کہا

”تیشہ بن مر نہ سکا کو ہکن اسد، سر گشتہ خمار رسوم وقیود تھا“

ہمیں بھی ہماری فضول رسومات نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہمارے مذہب نے ہر چیز میں ساد گی اپنا نے کا درس دیا ہے خصو صا ً رنج وا لم اور غم کے لمحات میں ساد گی اپنا نے کی تعلیم دی ہے شا دی کو آسان بنا نے کی تر غیب دی ہے نبی کریم ﷺ اور صحا بہ کرام ؓ کے مبارک ادوار میں ساد گی کو عملی طور پر اپنا کر دکھا یا گیا ہے اس پُر آشوب دور میں دو پہا ڑی دیہات کے نو جوا نوں کی طرف سے ساد گی اپنا نے کی تحریک اور گاوں کے بڑوں کی طرف سے اس پر اتفاق رائے ہمیں واقعی چونکا دیاسچی بات یہ ہے کہ ساد گی میں سہو لت ہے کا ش ہر گاوں میں ایسا ہی ہو تا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔