مفت علاج پروگرام پھر تعطل کا شکار…محمد شریف شکیب

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق انشورنس کمپنی نے بقایاجات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں صحت انصاف کارڈ کے تحت مفت علاج کی سہولت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔صحت کارڈ کے تحت صوبے کے 80لاکھ خاندانوں کے چار کروڑ شہریوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جارہی تھی۔ گذشتہ دو برسوں سے صوبے کے بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر مفت علاج پروگرام کے تحت 40لاکھ سے زیادہ افراد کا مفت علاج کیا گیا جس پر 55ارب روپے کی لاگت آئی۔ صوبائی حکومت کے ذمے انشورنس کمپنی کے 14ارب روپے کے بقایا جات تھے۔جن کی عدم ادائیگی پر انشورنس کمپنی نے 19اپریل کو مفت علاج کی سہولت معطل کردی تھی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے دو ارب روپے ادا کرنے پر مفت علاج کی سہولت بحال کردی گئی۔ سابق مشیر صحت نے 25اپریل کو مزید دو ارب روپے انشورنس کمپنی کا ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس دوران مشیر صحت خود عہدے سے مستعفی ہوگئے اور بقایاجات کی ادائیگی کا معاملہ لٹک گیا۔ انشورنس کمپنی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت حکومت کی طرف سے تین ارب روپے سیکورٹی کے طور پر کمپنی کے پاس جمع کرائے گئے تھے۔ کمپنی کاکہنا ہے کہ سیکورٹی کی رقم بھی مفت علاج پروگرام پر خرچ ہوچکے ہیں جب تک صوبائی حکومت بارہ ارب روپے کے بقایا جات ادا نہیں کرتی۔ ان کے لئے مفت علاج کا پروگرام جاری رکھنا ممکن نہیں۔ نگراں صوبائی حکومت کو 30جون تک یہ رقم انشورنس کمپنی کو ادا کرنے ہیں۔ جو صوبے کی موجودہ معاشی صورت حال کے پیش نظر ناممکنات میں سے ہے۔صحت انصاف کارڈ پروگرام پاکستان تحریک انصاف کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ جس کے تحت نادار لوگوں کو کسی بھی اچھے ہسپتال میں دس پندرہ لاکھ تک علاج کی سہولت میسر ہے۔ جن میں امراض قلب، گردوں کے علاج،جگر کی پیوند کاری سمیت پیچیدہ آپریشن اور مہنگے علاج شامل ہیں۔ صحت کارڈ پروگرام پر یہ اعتراضات کئے جارہے ہیں کہ صوبے کے تمام شہریوں کوبلاتقصیص یہ سہولت میسر ہے حالانکہ متمول لوگ سرکاری خرچ پرمفت علاج کروانے کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ اپنے علاج کے اخراجات خوداٹھاسکتے ہیں یہ اعتراض اس بنیاد پر درست نہیں کہ جن متمول لوگوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے وہ پاکستان کے ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواتے ہی نہیں۔ انہیں پاؤں میں موچ بھی آئے تو دوبئی، لندن، فرانس، جرمنی اور امریکہ جاکر اپنا ایکسرے کرواتے ہیں۔اور وہیں سے علاج کرواتے ہیں۔ گذشتہ دو سالوں کے اندر جن چالیس لاکھ افراد کا صحت کارڈ سے مفت علاج ہوا ہے۔ ان میں سے ننانوے فیصد لوگ مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ قومی شناختی کارڈ پرمفت مہنگے علاج کا پروگرام حقیقی معنوں میں قومی مفاد کا منصوبہ ہے جس سے پوری قوم کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حکومت کو اپنے دیگر غیر ضروری اخراجات اور عیاشیاں کم کرکے اس عوامی بہبود کے منصوبے کو جاری رکھناچاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ نمائشی اور بے سود محکموں اور اداروں کو سرے سے ختم کرنا اگر ممکن نہیں تو دوسرے اداروں میں انہیں ضم کیا جائے۔اور ان پر ضائع ہونے والے وسائل کوبچا کر عوامی بہبود کے منصوبوں پرلگایا جائے۔ صوبہ بھر میں جو سرکاری زمینیں بے مصرف پڑی ہوئی ہیں انہیں فوری طور پر نیلام کرکے ان سے حاصل ہونیوالی آمدنی ایسے پراجیکٹس میں لگائے جائیں جن سے آمدن پیدا ہوسکے۔ انہی سطو ر میں بار ہا حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ معدنیات اور سیاحت کے شعبوں کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے۔ یہ دونوں شعبے آئندہ چند سالوں کے اندر صوبے کی معاشی خود مختاری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے وعدے تو کئے تھے مگر اس جانب ٹھوس پیش رفت گذشتہ دس سالوں میں نظر نہیں آئی۔ سرخ فیتے کی رکاوٹ کو دور کرنے میں بھی حکومت کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔صحت کارڈ پروگرام معطل ہونے سے نہ صرف عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔بلکہ یہ موجودہ حکمران جماعتوں کے لئے بھی سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان کا موجب بنے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔