داد بیداد..پشاور کی پرانی یا دیں…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

حلقہ ارباب ذوق پشاور کی کتاب کہا نی تازہ ترین مجلس ہے اس مجلس میں نئے اورپرانے احباب کو دیکھ کر بر سوں پرانی ایسی مجلسیں یا د آجا تی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے دل کو تھامنا پڑ تا ہے یا دوں کی شمعیں جلا نی پڑ تی ہیں اور یا دوں کے دریچوں سے کچھ نہ کچھ لا نا پڑ تا ہے اگست 1975ء میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو نا صر علی سید کی جوانی کا جوبن اور شرر نغما نی کی بزر گی کا بڑا پن تھا شب مہتاب کے عنوان سے راتوں کی مجلسیں سجتی تھیں شمیم بھیر وی، طہٰ خان اور خا طر غزنوی کا دور تھا عزیز اعجاز، نذیر تبسم اور حسام حر نو جوانوں میں ہرا ول دستے کا کام کر رہے تھے وہ جو مرزا غا لب نے کہا ”یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم ارائیاں“ ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے فرق یہ ہے کہ نقش و نگا ر طاق نسیاں نہیں ہوئیں یہ ستمبر کی ایک معتدل سہ پہر کا ذکر ہے سوئیکا نو چوک میں واقع اُس وقت کے مر کزی ار دو بورڈ کی لا ئبریری میں مجلس جم گئی پرو فیسر شرر نعمانی نے اُس زما نے کے حساب سے صو بہ سرحد میں اردو ادب پر اپنا تحقیقی مقا لہ پڑ ھا پرو فیسر اشرف بخا ری نے مقا لہ نگا کو آڑے ہا تھوں لیا محسن احسان اور خا طر غزنوی نے مقا لہ نگار کی محنت کو داد دینے میں فیاضی کا مظا ہر ہ کیا اب میرے سامنے اسی مو ضو ع پر ہمارے دوست پرو فیسر کی تحقیقی کتاب رکھی ہے میں سوچتا ہوں آج اشرف بخا ری حیات ہو تے تو نئی کتاب کے مصنف کو کس اسلوب میں داد دیتے مجھے رہ رہ کے پشاور کے نو جواں لکھاریوں کی تنظیم ینگ تھنکر ز فورم کی سر گرمیاں یا د آتی ہیں نا صر علی سید اور عزیز اعجا ز اس تنظیم کے ذریعے احباب کو جمع کر تے تھے کبھی پیراڈائز ہو ٹل میں اور کبھی پشاور کلب میں اس کی نشستوں کا اہتما م ہو تا تھا مجھے ایک تنقیدی نشست میں شر کت آج بھی یا د ہے نا صر علی سید نے اپنا افسانہ ”آئس پیس“ تنقید کے لئے پیش کیا تھا اظہار خیال کرنے والوں میں توانا اواز مشتاق شباب کی تھی جن کی کتاب ”میں، ترقی اور احباب“ ان دنوں شائع ہو ئی تھی پشاور کے ایک پلا زے میں روز نا مہ ڈان کے بیورو آفس کے قریب دفتر ہوا کر تا تھا احمد حسن ڈان کے بیورو چیف تھے پرو فیسر شوکت واسطی کے سربراہ تھے کرنل عنا یت اللہ خان میجر یو سف رجا چشتی اور قدسیہ قدسی اس ادبی تنظیم میں شوکب واسطی کے معا ونین تھے ادبی پرو گرام پرل کا نٹی نینٹل میں ہوا کر تے تھے تنظیم کا دائرہ کو ہاٹ، ایبٹ اباد اور اسلا م اباد تک پھیلا ہوا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب شوکت واسطی نے بزم علم و فن کے ملٹن کی پیر ا ڈائز لاسٹ کا اردو تر جمہ ”فردوس گم گشتہ“ کے نا م سے شائع کیا احباب نے ان کے فارسی، عربی اور ہندی آمیز اردو تر جمے کو انگریزی سے بھی مشکل قرار دیا سچ پو چھیئے تو شوکت واسطی نے بڑا کا م کیا تھا اور ہر بڑا کا م ایسا ہی ہو تا ہے مجھے پشاور کلب میں میجر یو سف رجا چشتی کے گھر پر بھی ایک اچھی نشست رہ رہ کے یا د آتی ہے یہ سر دیوں کے دن تھے احباب نے سہ پہر کو گھر کے لا ن میں مجلس جما ئی اس مجلس میں نذیر تبسم نے جو غزل سنا ئی اس کا مطلع ابھی تک مجھے نہیں بھولا ”لہو کا زہر بھی جس کی نگاہ بد میں ہے وہ شخص مجھ سے بڑا صرف اپنے قدمیں ہے“پھر یہ سلسلہ آگے بڑھاگند ھا را ہند کو بورڈ کی سر گرمیاں شروع ہوئیں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ڈاکٹر الٰہی بخش اختر اعوان، صابر حسین امداد ڈاکٹر صلا ح الدین اور ڈاکٹر سید امجد حسین کو سننے کے مواقع ملے پشاور کی پرانی یا دیں ایسی بے شمار سر گر میوں سے عبارت ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔