ہوا کے دوش پر سریلی آواز…محمدشریف شکیب

پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن پشاور کی عمارت میں توڑ پھوڑ اور گھیراو جلاو پر اتنا دکھ ہوا۔ جیسے کسی نے میرے اپنے گھر میں تباہی و بربادی مچائی ہو۔ ریڈیو پاکستان پشاور ملک میںقائم ہونے والا پہلا ریڈیو سٹیشن ہے۔ ریڈیو پشاور نے خیبر پختونخوانےپشتو، ہندکو، کہوار،گوجری اور صوبےمیں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی ترویج و ترقی کے لئےنمایاں کردار ادا کیا ہے۔ریڈیو پاکستان سےہمارا تعلق 55سال پرانا ہے۔ 1965میں جب ریڈیو سے کہوار زبان میں نشریات کا آغاز ہوا۔ تو گائوں کےتمام مردوزن اور بچے ہمارے گھر میں موجود ریڈیو کے گرد جمع ہوتےتھے۔دیگر زبانوں کی طرح کہوار زبان و ثقافت کو زندہ رکھنےاور اسے فروغ دینے میں ریڈیو نے جو کردار ادا کیا۔وہ قابل تحسین ہے۔ 1989میں میرا بھی بطور نیوز مترجم ریڈیو سے تعلق جڑ گیا۔ اردو اور کہوار خبروں کے تراجم کےساتھ بعض اوقات خبریں پڑھنے کی بھی نوبت آتی تھی یوں ایک ریزو نیوز کاسٹر بھی بن گیا۔ کچھ عرصہ پشاور سےنشر ہونے والے پروگرام کہوار مجلس کے منتظم کی حیثیت سے کام کیا۔ آج تک ریڈیو سمیت کئی نشریاتی اداروں سے وابستگی رہی لیکن جو احترام کا ماحول ریڈیوپاکستان میں دیکھا اس کی نظیر نہیںملتی۔ گیارہ مئی کو یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گری کہ شرپسندوں نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذر آتش کردیا۔ اس سے ایک دن پہلے ریڈیو پاکستان کے احاطے میں موجود جوہری دھماکوں کی یادگار چاغی پہاڑ کےماڈل کو نذر آتش کیا گیا تھا۔ اگلے روز شرپسندوں کا جتھا مین گیٹ کے راستے دوبارہ ریڈیو پاکستان کے احاطے میں داخل ہوا۔ گارڈ کے کمروں اوررجسٹریشن آفس کو آگ لگانے کے بعد صاحبزادہ عبدالقیوم اڈیٹوریم میں داخل ہوگئے اور اسے آگ لگادی۔ شرپسندوں نے ریڈیوپاکستان کےاحاطے میں موجود سٹاف کی ذاتی گاڑیوں کو بھی جلا کر راکھ کردیا اس کے بعد مرکزی عمارت میںداخل ہوگئے۔ نیوز روم، ریکارڈ روم، ڈیوٹی روم اور دیگر دفاتر کو آگ لگادی۔جس سی پوری عمارت شعلوں کی لپیٹ میں آگئی۔خوش قسمتی سےشرپسندوں کی توجہ سٹوڈیوزکی طرف نہیں گئی اور وہ ان کے دست برد سے محفوظ رہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کی گرفتاری سےریڈیوپاکستان کا کیا تعلق تھا۔اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں۔ لیکن یہ بات طےہے کہ جب بھی کسی ادارے، پارٹی یا تنظیم کی طرف سےاحتجاجی مظاہروں کی کال دی جاتی ہے۔تو تاک میں بیٹھے شرپسند عناصر کو مظاہرین میں گھس کر گھیراو جلاو، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کا موقع مل جاتا ہے۔ماضی میں بھی جب شہر میں احتجاجی ریلیاں ہوئیں تو شہر میں تباہی مچائی گئی۔ شرپسند دکانوں، پٹرول پمپوں پر لوٹ مار کرتے رہے بینکوں کی اے ٹی ایم مشینیں بھی اکھاڑ لے گئے۔شاہراہوں کے کنارے گھروں، دفاتر اور دکانوں کو ایسے مواقع پر ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ریڈیو پاکستان کی عمارت میں آگ لگائی جا رہی تھی اور لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔اندر کے کچھ لوگ بھی شرپسندوں کے ساتھ لوٹ مار اور گھیراو جلاو میں شامل ہو گئے تھے۔یہ حقیقت ہے کہ لنکا ڈھانے میں ہمیشہ گھر کا بھیدی ہی شامل ہوتا ہے۔آج کل ہر دکان اور دفتر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں شرپسندوں کا کھوج لگانا اور انہیں شناخت کرنا مشکل نہیں ہے۔اس قومی اثاثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کی بھی ہر قیمت پر نشاندہی ہونی چاہئے اور انہیں قرار واقعی سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو ذاتی مفادات کے لئے قومی املاک کو نقصان پہچانے کی جرات نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو بھی احتجاجی مظاہروں کے موقع پر خود بھی شرپسندوں پر کڑی نظر رکھنی چاہئے۔کیونکہ یہ عناصر ان کے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ قومی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہ قومی مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔