عملی اور روایتی تعلیم میں فرق..محمد شریف شکیب

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق نئے تعلیمی سال کے لئے سکولوں میں داخلوں کا جو ہدف مقرر کیاگیا تھا۔ اس کا نصف بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ محکمہ تعلیم نے رواں تعلیمی سال کے دوران پشاور اور ضم اضلاع سمیت پورےصوبے میں سکول سے باہر موجود 16لاکھ بچوں کو داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسروں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ گلی محلوں، مساجد اور حجروں میں جاکر سکول جانے کی عمر کے بچوں کو داخل کرانے کی کوشش کریں۔ داخلوں کی معیاد ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ بوائز سکولوں میں داخلے کی شرح ہدف کے مقابلے میں 50فیصد اور گرلز سکولوں میں صرف 30فیصد رہی۔ صوبے کے ایک ہزار چار سو سکول ایسے بھی ہیں جہاں اس سال کوئی بچہ داخل نہیں ہوا۔صوبے کے 35اضلاع میں سے صرف 9اضلاع میں 80فیصد داخلوں کا ہدف حاصل ہوسکا۔مگر وہاں داخلوں کا ہدف 800مقرر تھا۔بعض اضلاع ایسے بھی ہین جہاں صرف دو ہزار بچوں کو ہی داخل کیا جاسکا۔صوبائی حکومت سرکاری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کو کافی مراعات بھی دے رہی ہے۔ انہیں کتابیں، کاپیاں، بستے ، یونیفارم اور جیب خرچ بھی دی جارہی ہےاس کےباوجودلوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے سے کترارہے ہیں۔لوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکول بھیجنے کے بجائے دینی مدرسے بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جو لوگ تھوڑی بہت استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں۔محکمہ تعلیم کو داخلہ اہداف کے حصول میں ناکامی پر اپنے ای ڈی اوز کے خلاف تادیبی کاروائی کے ساتھ اپنے نصاب، طریقہ تدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے علاوہ تدریسی عملہ کی تربیت پرتوجہ دینی چاہئے۔ بدقسمتی سے تعلیم کے شعبے کو گذشتہ سات عشروں میں حکومتوں نے اپنی ترجیحات کی فہرست سے باہر رکھا۔ جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار روزبروز گرتارہا۔ آج حالت یہ ہے کہ صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سرکاری سکولوں کا کوئی بچہ ٹاپ ٹوینٹی میں بھی جگہ نہیں بناپاتا۔سرکاری سکولوں میں بڑے اچھے ماہرین تعلیم اور بہترین اساتذہ موجود ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ 80فیصد تدریسی عملہ سیاسی سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر محکمہ تعلیم میں شامل ہوا ہے۔جو سرکاری تعلیمی اداروں کی تنزلی کا سبب بنا ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو قوم کے مستقبل کے معماروں کو معیاری اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔سابقہ صوبائی حکومت نے سرکاری سکولوں میں این ٹی ایس ٹیسٹ کے ذریعے نئے اساتذہ کی بھرتی اور پرانے اساتذہ کو بھی تحریری امتحان سے گذارنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم نامعلوم مصلحتوں کی بناء پر اس فیصلے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔سرکاری تعلیمی اداروں پر قومی خزانے سے سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔اول تو لوگ اپنے بچوں کو وہاں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔ جو بچےداخلہ لیتے ہیں ان کی بڑی تعداد پرائمری لیول پر ہی سکول چھوڑ جاتی ہے۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے بچوں کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔اگرچہ تعلیم کا فروغ اور اس کے لئے جامع منصوبہ بندی کرنا نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے تاہم محکمہ تعلیم کے پالیسی سازوں کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہئے۔ نجی تعلیمی اداروں میں آکسفورڈ اور دیگر معیاری بین الاقوامی تعلیمی اداروں کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔نصاب سے زیادہ اہم طریقہ تدریس ہے۔پوری دنیا میں عملی سرگرمی کی بنیاد پر تعلیم کا رواج فروغ پارہا ہے۔ جبکہ ہم کتابیں رٹ کر امتحان پاس کرنے کی فرسودہ روایت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہوگا تو لوگ خود اپنے بچوں کو وہاں داخل کرائیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ کسی ایجوکیشن آفسر، محکمہ تعلیم کے اہلکاروں اور خود اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اساتذہ کو اپنے بچے سرکاری سکولوں مین لانے کا پابند بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ قوم کے بچوں کو بھی دلچسپی اور دلجمعی سے پڑھاسکیں اور سرکاری اداروں کا معیار بہتر ہوسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔