داد بیداد…صوبیدار رحمت اعظم…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
ہمارے سکول کے زما نے کا ساتھی اور دوست صوبیدار رحمت 21مئی 2023ء کو 76سال کی عمر میں وفات پا گئے انہوں نے ہمارے گاوں با لیم لا سپور کے اوکیل وزیر بیگے خا ندان میں امیر شاہ کے ہا ں آنکھ کھو لی ان کے والد متمول اور کھا تے پیتے زمیندار تھے ان کے ہاں اناج، غلہ، گوشت، گھی اور پنیر کی بڑی دولت تھی پرائمیری سکول ہر چین سے ابتدائی تعلیم حا صل کرنے کے بعد انہوں نے سٹیٹ ہائی سکول چترال سے1967ء میں میٹرک کا امتحا ن پا س کیا سر ٹیفیکٹ لیکر فرنٹیر کور میں سپا ہی بھر تی ہوئے اپنی ذہا نت اور قابلیت کے بل بوتے پر ترقی کر کے صویبدار کے منصب پر ریٹائرمنٹ لے لی ہمارے لئے ان کی تعلیم اور نو کری سے زیا دہ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ تعلیم اور نو کری سے زیا دہ مزاح گو، مزاح نگار، فکا ہیہ فنکار حا ضر جواب مجلس باز اور مرنج و مر جان شخصیت کے ما لک تھے
صو بیدار میر ولی شاہ اور میں نے پانچویں کا امتحا ن پا س کیا تو رحمت اعظم نے مڈل سٹینڈرڈ میں بورڈ کا امتحا ن دیا تھا دو ماہ بعد نتیجہ آیا تو سٹیٹ ہائی سکول چترال میں نو یں جما عت سے دوبارہ سبق کا آغاز کیا سائنس اختیاری کے طالب علم تھے اس زما نے میں ڈرائینگ بورڈ لا زمی تھا یہ دو فٹ لمبا ایک فٹ چوڑا لکڑی کا تختہ ہو تا تھا رولر اس کے ساتھ لگا ہوتا تھا ایک ہا تھ میں کتابیں ہو ا کر تی تھیں دوسرے ہاتھ سے ڈرائنگ بورڈ کو بغل میں دابے آنا جا نا پڑتا تھا چنا نچہ وہ اس کو ”اونز وخت“ کہا کر تے تھے سکول کے اندر بزم ادب کے پرو گراموں میں مزاحیہ کر دار ادا کر کے لو گوں کوہنسا نے کی وجہ سے پورے سکول میں ایک مقبول طالب علم تھا سوشل ورک اور فاٹیگ میں دوسروں سے کا م لینے کی وجہ سے اس نے خود اپنے لئے ”میٹ“ کا نا م چنا تھا اور یہ نا م صو بیدار بننے کے بعد بھی ان کے ساتھ وفا کر تا رہا چنا نچہ میٹ صوبیدار کہلا ئے اُس زما نے میں سکول کے سامنے پیریڈ گراونڈ میں ہر سال جشن چترال کا میلہ لگتا تھا اُس میلے میں رحمت اعظم بھی عبدا لستار، چار لی،کیمیا خان اور عبد الجبار جیسے کہنہ مشق فنکاروں کے ساتھ مزا حیہ اداکاری کے جو ہر دکھا تا تھا یہ ایسا دورتھا جب سامان تجا رت پرا چہ اپنے بار برداری کے جا نو روں پر چکدرہ سے گلگت تک لے جا تے تھے رحمت اعظم کے کردار وں میں سب سے دلچسپ کر دار وہ ہوا کر تا تھا جب وہ پراچہ،سو دا گر، مداری یا لو ہار کے روپ میں سٹیج پر آتے اور حا ضرین کو محظوظ کر تے آخر عمر تک حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور ہنسی مزاح ان کی شخصیت کا حصہ رہی چند سال پہلے ان کے دل کا بائی پا س اپریشن ہوا تھا، ان کا معمول تھا کہ سر دیاں اسلام ابادمیں بیٹوں کے پا س گذار تے تھے شربت خان اور داد پناہ سکول میں ان کے ہم جما عت تھے ہمارے گاوں سے سکول تین دنوں کی پیدل مسافت پر واقع تھا سال میں تین دفعہ چھٹیاں ہو تیں تو ہم اپنے اپنے ہا سٹلوں سے نکل کر اکھٹے سفر کر تے گرمی، سردی اور کبھی برفانی مو سم میں اس سفر کی یا دیں کا فی تلخ ہوتیں جب ہم مل بیٹھتے تو ان یا دوں کو تازہ کر تے 1967میں صوبیدار اپنے گھرانے کا واحد میٹریکو لیٹ تھا آج ان کے بچے، بھتیجے گریجویٹ ہیں ان کے 5بیٹوں میں بڑا بیٹا غلا م حسین پا ک آرمی میں جے سی او ہے منجھلا بیٹا حا جی حسین کا روبار کر تا ہے عبد الحمید، امتیاز حسین اور عبد القادر یو نیورسٹی سطح پر اعلیٰ تعلیم حا صل کر رہے ہیں بھتیجوں میں میر رحیم شاہ، میر جوان شاہ اور محمد عیسیٰ اعلیٰ تعلیم کے بعد درس وتدریس کے شعبے منسلک ہیں، علی مدد شاہ نے بھی اعلیٰ تعلیم حا صل کی ہے باقی فوج اور صحت کے شعبے میں ہیں آج یہ گھرانہ علم کی روشنی سے منور ہے ان کے بڑے بھا ئی قاضی میر صوات خان اور چھوٹے بھا ئی میر با چا خان دونوں حیات ہیں سکول کے زما نے میں ان کے ساتھیوں اور دوستوں کی لمبی فہرست ہے رحمت غا زی، کرنل سردار، شمس النظر فاطمی، صمد گل، آذاد علی شاہ، ڈاکٹر فضل قیوم ان میں چند نا م ہیں سکول کے احباب جہا ں بھی ملتے ہیں صو بیدار رحمت اعظم عرف میٹ کا ذکر خیر ضرور ہوتا ہے اللہ پا ک ان کی روح کو کروٹ کروٹ سکون اور راحت نصیب کرے۔