داد بیداد…یا دوں کے چراغ…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
پشاور کا نا م سامنے آتے ہی یا دوں کے چراغ جلتے ہیں زیا دہ دور کی بات نہیں 50سال پہلے کی بات ہے 1973ء میں پشاور کے سرائے اباد ہوا کر تے تھے اور صدیوں پرانی تہذیب کی علا مت سمجھے جا تے تھے شام ہو تے ہی بازار وں میں آواز لگا نے والے ”سرائے“ کی آواز لگا تے تھے یہ وہ زما نہ تھا جب کوئی نیا ہو ٹل بنتا تو سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا جا تا تھا کہ فلش سسٹم دستیاب ہے اور ایسے ہوٹل بہت کم بلکہ خال خال نظر آتے تھے سرائے میں امانتیں رکھنے کا قابل اعتما د طریقہ ہو تا تھا مسا فر کو صرف چار پا ئی ملتی تھی بڑے ہال اور بر آمدوں میں بٹگرام اور چترال سے لیکر ٹانک اور وزیر ستان تک کے مسافر کندھے سے کندھا ملا کر ہنسی خو شی رات گذار تے تھے مسا فر کی کوئی نجی زند گی نہیں تھی پرائیویسی کا تصور نہیں تھا جب میں شہر کے کسی بازار سے گذر تا ہوں تو ”سرائے، سرائے“ کی آوازیں خیا لات میں سر سر اتی ہیں، یہ وہ دور تھا جب پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا محدود نظا م تھا گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) ڈبل ڈیکر اور اومنی بسیں نما یاں تھیں، بس کا کنڈکٹر گلے میں کا لا بیگ لٹکائے ہر مسا فر کے لئے ٹکٹ کاٹتا تھا طالب علموں کا ٹکٹ ادھا ہو تا تھا سٹو ڈنٹ کا رڈ دکھا کر آدھے ٹکٹ کی سہو لت حا صل کی جا تی تھی بس میں نشستیں بھر جا تیں تو مسا فر سیٹوں کے درمیان والی خا لی راہداری میں کھڑے ہو جا تے کلینر کی زبان میں یہ جگہ ”چمن“ کہلا تی تھی شہر کے لو گوں میں تہذیب، رکھ رکھا ؤ اور شائستگی کا اعلیٰ معیار تھا کوئی سفید ریش چمن میں کھڑا ہوتا تھا تو چمن کے دونوں اطراف میں دو چار مسا فر اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر عرض کر تے ”حا جی صئیب کینہ“ اس طرح معزور اور خا توں کے لئے خو شی سے جگہ خا لی کی جا تی تھی پھر ویگنوں اور ٹی آر بی بسوں کا دور آیا کلینر کی آواز گونچنے لگی ٹیشن لہ، قچرولہ، ٹون لہ، زہ استاز وغیرہ ہم نے اس کا بھی لطف اٹھا یا ہم نے پشاور شہر میں کیفی کے کئی معانی اور مفا ہیم دیکھے نغز گو شاعر ابولکیف کا تخلص کیفیؔ تھا شہر میں جدید ریسٹورنٹ کیفی کہلا تے تھے، خورشید کیفی، کیسینو کیفی بڑے مقبول ریسٹورنٹ ہو ا کر تے تھے اس دور میں ٹیلی وژن اور وی سی آر کا رواج نہیں تھا گرامو فون ریکارڈ کے ذریعے گانے سنا ئے جا تے تھے چائے کا آرڈر دیکر نو جوان ایک کا غذ پر کسی مقبول گیت کی فرمائش لکھ کر بھیجد یتے چائے آنے سے پہلے گیت سنتے تو چائے کی لطف دو بالا ہو جاتااس کے بعد کیفی کا نا م انٹر نیٹ کی دکان کے لئے استعمال ہونے لگا اُس زما نے میں سینما ہال کو شہر میں تفریح کا واحد ذریعہ خیال کیا جا تا تھا کوئی اچھی فلم لگ جا تی تو ٹکٹ ملنا بہت مشکل ہوجا تا ٹکٹ گھر کی کھڑ کی پر ٹکٹ لینے والوں کا ہجوم ہو تا جس کو ٹکٹ ملتا اُسے خو ش قسمت تصور کیا جاتا تھا اس شعبے کا سب سے اہم آدمی گیٹ کیپر کہلا تا تھا گیٹ کیپر کی اہمیت گیٹ پر کا م نہیں آتی تھی اُ س کے پا س بلیک میں فروخت کے لئے ٹکٹ ہوتے تھے اس میدان کے پرا نے کھلا ڑی گیٹ کیپر کا اعتما د حا صل کر تے اور حسب ضرورت بلیک میں ٹکٹ حا صل کر تے تھے گیٹ کیپر سرکاری اہلکاروں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر تھا نہ کچہری میں پھنے خا ن بن کر پھر تا اور گونا گو ں کام نکا لا کر تا تھا آج گیٹ کیپر کا نا م کوئی نہیں جانتا، ما ضی کی یا دوں میں کھو جا نے کی ایسی کیفیت کو انگریزی میں ”نا سٹلجیہ“ (Nastalgia) کہا جا تا ہے اردو کے شاعر نے اسی کیفیت کو دو مصرعوں میں بیان کیا ہے یا د ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حا فظہ میرا ہر بڑے شہر کا باسی اپنے شہر کی پرانی یا دوں کو سینے میں سجائے رکھتا ہے پشاور کے با سیوں کا بھی یہی شیوہ رہا ہے کسی کو گنچ اور یکہ توت کی گلیاں یا د آتی ہیں کوئی اپنے آپ کو لا ہوری اور ہشتنگری میں مشغول پا تا ہے کوئی قصہ خوا نی اور چوک یا د گار کے گرد خیا لوں میں چکر لگا تا ہے تو کسی کو رامداس بازار، نمک منڈی اور پیپل منڈی کی یا د ستاتی ہے دانش وروں نے اپنی تحریروں میں پشاور کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بہت دلاآویز اور متنوع ہے مشہور نثر نگار اور براڈ کاسٹر آفتاب اقبال با نو ماسکو میں گھو متی ہے تو اس کو پشاور یا د آجا تا ہے رحمان با با کہتا ہے ظا لم حکمرانوں کے ہاتھوں پشاور کا حال آگ اور قبر جیسا ہو گیا ہے فارع بخا ری نے پشاور کا نا م لیئے بغیر کہا امیر شہر کا سکہ ہے کھوٹا مگر شہر میں چلتا بہت ہے۔