ایم ٹی آئی ایکٹ کے خاتمے کی تجویز…محمد شریف شکیب
ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت نے سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خود مختار بنانے کی پالیسی رول بیک کرنے اور ایم ٹی آئی ایکٹ ختم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی غیر موجودگی میں ایم ٹی آئی کے خاتمے کے لئے محکمہ قانون، محکمہ صحت اور اسٹبلشمنٹ ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے ساتھ مختلف ہسپتالوں کے بورڈ ممبران اور سربراہوں کو بھی فارع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پرآرڈیننس بھی جاری کیاجاسکتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سابقہ نظام کی بحالی کے لئے سفارشات مرتب کرکے نگراں صوبائی حکومت سے اس کی منظوری لی جائے گی۔خیبر پختونخوا کے سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو ایم ٹی آئی کا سٹیٹس دینےکا فیصلہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کیا تھا۔ جس کےتحت لیڈی ریڈنگ ہسپتال، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، مردان میڈیکل کمپلیکس، سیدو ہسپتال سوات ، ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد سمیت صوبے کے بڑےہسپتالوں کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خود مختار بنایاگیا تھا۔ یہ ہسپتال سرکاری گرانٹ کے علاوہ اپنےوسائل خود جنریٹ کرتے ہیں۔تمام ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں کو شام کے اوقات میں پرائیویٹ پریکٹس کی سہولت مہیاکی گئی ہے جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا چالیس فیصد ہسپتال کے فنڈ میں جمع ہوتا ہے۔ ایم ٹی آئی سٹیٹس ملنے کے بعد ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بھی تبدیل کردیا گیا اور انہیں جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے علاوہ صفائی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔اگر اس نظام میں کچھ خرابیاں ہیں تو ان کی نشاندہی کے بعد خرابیوں کو دور کرنے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اگر ایم ٹی آئی کا نظام عوام اور ہسپتال کے ملازمین کے مفاد میں ہے تو اسے بیک جنبش قلم ختم کرنا مناسب نہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں وقت گذرنے کے ساتھ خامیاں بھی سامنے آتی ہیں اور ہر ادارے میں بہتری اور اصلاحات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔خیبر پختونخوا کی نگراں صوبائی حکومت کو اپنے مینڈیٹ سے باہر چیزوں کو چھیڑنے سے ہر ممکن گریز کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ نگراں حکومت کا مینڈیٹ صوبے میں پرامن،آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ آئین کے تحت نگران حکومت کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت نہیں کرسکتی، نہ ہی کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرسکتی ہے۔ نگران حکومت کو سرکاری محکموں میں تقرریوں کا بھی اختیار نہیں صرف پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیاب ہونےوالے امیدواروں کی تقرریاں ہوسکتی ہیں۔ صوبے میں نگراں حکومت کی نوے دن کی مدت پوری ہوچکی ہے۔ آئندہ چند مہینوں کے اندر صوبے میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ ایم ٹی آئی کے خاتمے یا اسے برقرار رکھنےکافیصلہ اگر اگلی منتخب حکومت کے لئےچھوڑ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ادارے بنانے میں قومی وسائل میں سے کروڑوں اربوں روپےخرچ ہوتے ہیں انہیں یکطرفہ فیصلوں کے تحت ختم کرنا قومی وسائل کے ضیاع کے مترادف ہوگا۔