چیئرمین سینٹ کے مراعات کا بل۔۔۔محمد شریف شکیب
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ چیئرمین سینٹ کی تنخواہ اور مراعات کا دفاع نہیں کرسکتا۔قومی اسمبلی اس معاملے سے اپنے آپ کو دور رکھے۔چیئرمین سینیٹ کی مراعات کے بل سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گااس بارے میں تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ایوان بالا نے سابق چیئرمین سینیٹ کو 12 ملازمین اور 6 سکیورٹی اہلکار مستقل اپنے ساتھ رکھنے کا حقدار قرار دینے کے بل کی منظوری دی ہے۔سینیٹ سے منظور کردہ بل کے مطابق چیئرمین سینیٹ کی رہائش گاہ کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ کر دیا گیا، چیئرمین سینیٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کیلئے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کر دیے گئے۔دفتر سے پانچ میل سے زیادہ سفر پر 10 روپے فی کلومیٹر کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ 300 اور نجی کار کا 400 روپے فی کلومیٹر الاؤنس ملے گا۔سفر کے دوران آرام اور قیام و طعام کے لئے 1750روپے کے بجائے 10 ہزار روپے ملیں گے، چیئرمین سینیٹ چارٹرڈ جہاز پر بیرون ملک جاسکیں گے اور ساتھ میں چار اہلخانہ بھی سفر کر سکیں گے۔سابق چیئرمین سینیٹ کو 12 ملازمین کا عملہ ملے گا،رہائش گاہ پر سکیورٹی کے 6 اہلکار تعینات ہوں گے۔سفر کے دوران اسکواڈ میں پولیس، رینجرز، فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 4 اہلکار شامل ہوں گے۔چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق جو بل سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے اس کے اہم نکات میں یہ بھی شامل ہے کہ چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزیئن و آرائش پر پچاس لاکھ روپے تک قومی خزانے سے خرچہ کیا جاسکتا ہے۔چیئرمین سینیٹ منتخب ہوتے وقت اگر ان کے پاس کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے تو انھیں ایسے گھر میں رکھا جائے گا جس کا ماہانہ کرایہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گا۔ اگر چیئرمین سینیٹ اپنے ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو انھیں سرکار کی طرف سے ڈھائی لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے تاہم اس گھر کی تزیئن و آرائش پر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا نہیں کیے جائیں گے۔ اگر چیئرمین سینیٹ بیرون ملک دورے پر جائے گا تو ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر استعمال جہازوں کے علاوہ مسلح افواج یا کسی فلائینگ کلب کا طیارہ حاصل کیا جائے گا۔چیئرمین سینیٹ کے لیے کوئی طیارہ کرائے پر لیا جاتا ہے تو اس میں ان کے خاندان کے چار افراد ان کے ساتھ جا سکتے ہیں اور اگر چیئرمین سینیٹ کسی کمرشل فلائٹ سے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے ِخاندان کا ایک فرد ان کے ساتھ جاسکتا ہے جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے۔اگر چیئرمین سینیٹ کسی فضائی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے ورثا یا ان کی نامزد کردہ کسی شخص کو ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا۔اگر کسی چیئرمین سینیٹ نے تین سال کا عرصہ مکمل کر لیا ہے تو وہ اور ان کی اہلیہ ملک میں اور بیرون ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج کروانے کے اہل ہوں گے اگر سابق چیئرمین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی بیوہ یہ سہولتیں حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔صدر مملکت چیئرمین سینیٹ کو تین ماہ کی چھٹی بھی دے سکتے ہیں اور اس عرصے کے دوران چیئرمین سینیٹ پوری تنخواہ بھی وصول کریں گے۔جو بھی شخص چیئرمین سینیٹ کی تین سال کی مدت مکمل کرلے گا تو اسے فل سکیورٹی فراہم کی جائے گی جس میں سے چھ سنتری جبکہ چار اہلکار جن کا تعلق پولیس کی انسداد دہشت گردی سکواڈ، رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہوگا۔سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ بھی ڈیڑھ لاکھ روپے ہو گی جبکہ سینیٹ اور کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے انھیں یومیہ 4800 روپے ملیں گے جو کہ اس سے پہلے 28 سو روپے ملتے تھے۔سینٹ ارکان کا سفری الاؤنس بھی بڑھ جائے گاموجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بل کے پاس ہونے سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔چیئرمین سینٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا یہ بل پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک نے پیش کیا تھا دونوں سینٹ کے چیئرمین رہے ہیں۔بل پاس ہونے کے بعد یہ مراعات سینٹ کے تمام سابقہ اور آئندہ چیئرمینوں کو بھی حاصل ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں بل کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے موجودہ صدر عارف علوی کو پورے خاندان، برادری اور سٹاف ممبران سمیت سرکاری خرچ پر حج پر بھیج دیا ہے۔ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ قائمقام صدر کا عہدہ سنبھالیں گے اور اپنے مراعات کے بل کی خود ہی منظوری بھی دیں گے۔ اس وقت ملک سنگین مالی بحران سے دوچار ہے۔ بلوم برگ سمیت اقتصادیات کا تجزیہ کرنے والے بین الاقوامی ادارے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ کے 85 ممبران کو تنخواہوں اور مراعات کےعلاوہ کروڑوں روپے کے صوابدیدی فنڈز دیئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو بیرون ملک دوروں سے فرصت نہیں ملتی۔ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد اضافے کااعلان کرکے حکمران سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مہنگائی میں عوام کو ریلیف دیا ہے۔ چوبیس کروڑ کی آبادی میں سرکاری ملازمین کی تعداد بیس لاکھ سےزیادہ نہیں۔ 23کروڑ 80لاکھ لوگ کس سے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی التجا کریں۔ملک میں حالات اس قدر خراب ہوئے ہیں کہ لوگ کشتیاں جلاکر اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بیرون ملک جانے پر مجبور ہورہے ہیں یونان کے سمندر میں چار سو پاکستانیوں کے ڈوب مرنے کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔بجٹ میں بھی مراعات یافتہ طبقے کو مزید مراعات اور فوائد پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔آج تک جتنے حکمران گذرے ہیں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب نے مراعات یافتہ طبقے کو ہی فائدہ پہنچایا ہے۔ عام آدمی کی تکالیف اور دکھوں کا حکمرانوںکو اندازہ ہے اور نہ ہی وہ ان سے غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔