دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔”اساتذہ کی محرومیاں اور حقوق کی جنگ“۔۔۔ محمد جاوید حیات۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت کے محسن ہمیشہ وہ لوگ رہے ہیں جنہوں نے ان کو اخلاق و کردار کا سبق پڑھایا ان کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا اور ہنر کی باریکیاں سیکھاٸیں۔۔انہی کو زمانہ استاد کہتا ہے لیکن یہی استاد ہمارے ہاں آکر کوئی عام سا آدمی ہے الا ماشا اللہ کوٸی اس کو اپنا محسن یا گرو مانے ورنہ تو کسی بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا بندہ جس نے اپنی زندگی میں معمولی کامیابی بھی حاصل کی ہو وہ اپنا سب کچھ یاد رکھے گا ایک استاد اس کو یاد نہیں آۓ گا ۔اس کویاد نہ ہوگا کہ اس کی انگلیاں پکڑ کر الف با لکھانے والا کوٸی تھا ۔ملک کا ہر طبقہ فکر اس بات پہ معترض ہوگا کہ استاد کا بھی کوئی کردار ہے ۔وہ اپنے بچے کو جس ہستی کے پاس انسانیت سیکھانے کے لیےبھیجے گا اس ہستی کی کوٸی وقعت اس کےنزدیک نہ ہوگی ۔کسی فلم کے کردار کو ” ہیرو“ ”ہیروٸن “ سٹار تک کہا جاۓ گا اس کو لاکھوں کروڑوں کا معاوضہ ملے گا کسی مسجد میں دین سیکھانے والے، کسی مدرسہ میں قران پڑھانے والے، کسی سکول میں انسانیت اور ہنر سیکھانے والے کو بمشکل چند سکے ملیں گے اور توقیر اس کی صفر ہوگی ۔کسی کھیلاڑی، کسی ڈانسر، کسی گاٸیک کو فنکارکہہ کر اس کو سلیبریٹی کہا جاۓ گا اور دوسری زبان میں یہی وی آئی پی ہوگا ۔اس معاشرے کے اندر استاد کا وجود صفرہے اگر وہ گریڈ کے لحاظ سے 22 گریڈ کا بھی ہو تو اس کا نہ ڈھنگ کا دفتر ہوگا نہ پروٹوکول ہوگا نہ گارڈ نہ گاڑی ہوگی ۔کوئی استاد کسی سکول میں ہو تو اس کے پاس نہ رہنے کی جگہ ہوگی نہ ذاتی ملازم ہوگا اس کے سامنے ایک بے ترتیب ہجوم ہوگا نہ جدید تعلیمی سہولیات ہوں گی اور اوپر سے اس ہجوم کی عقلی کمزوریوں، تربیتی کمزوریوں اور انسانی کمزوریوں کا ذمہ دار استاد کو ٹھہرایا جاۓ گا ۔پولیس کانسٹیبل کے پاس گاڑی ہوگی اس کا کام جراٸم روکنا ہوگا اگر جراٸم میں روز بروز اضافہ بھی ہو جاۓ تواس کو کوئی ذمہ دار نہیں ٹھہراۓ گا ۔عدالت میں انصاف کی دھجیاں اڑیں گی لیکن وکیل، جج ریڈر ،چپڑاسی تک قابل احترام ہوں گے ۔کسی بھی محکمے میں جاٶ ادھر سہولیات کی بھر مار ہوگی ادھر ان اہکاروں کا ایک مقام ہوگا ۔۔پٹواری کا احترام کرنا پڑے گا واپڈا والوں سے تعلقات بڑھانا پڑے گا ۔ ایک استاد ہوگا جو کسی کام کا نہ ہوگا اس سے معاشرے کوکوئی لینا دینا نہ ہوگا ۔معاشرے کا اشرافیہ استاد کوبچوں کا ٹیوشن پڑھانے کے لیے مزدور رکھے گا ۔انتظامیہ استاد کو الیکشن ، مردم شماری ، پولیو ، ووٹروں لسٹ بنانے کے لیے منشی رکھے گا ۔لے دے کے استاد کی تنخواہ ہوگی اس پر بھی سب کا اعتراض ہوگا کہ استاد بہت پیسے بٹورتا ہے۔استاد معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو یہی کچھ سہتا ہے ۔ساری دنیا کو چھوڑ کر یہ المیہ ہمارے ملک خداداد میں استاد کے ساتھ رہا ہے ۔آج ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہےکہ اساتذہ انتہاٸی بے بسی کے عالم میں اپنے جاٸز حقوق سے محروم ہوکر میدان میں آگۓ ہیں ۔ملک کے تمام صوبوں میں ایس ایس ٹی کا کیڈر 17ہے کے پی کے میں 16 ہے ۔۔اس طرح سی ٹی کا پی ایس ٹی کا 15 اور 12 ہے یہ سب اپنا جائز حق مانگتے ہیں ۔پچھلے تیس سالوں سے اس کیڈر کی پروموشن نہیں ہوئی ۔دوسرے کیڈرز کی پروموشن اور اپگریڈیشن کو جان بوجھ کر التوا میں رکھا جاتا ہے پنشن اصلاحات کے نام پہ سارے ملازمیں کے سینےمیں چھرا گھونپا جاتا ہے ۔اساتذہ کی مراعات کی بات ہو تو خزانہ خالی ہوتا ہے اور یہ حکومت پر مالی بوجھ ہے دوسرے اشرافیہ کی عیاشیوں میں اضافہ کے لیے خزانہ بھرا ہوا ہے۔اگر کام اور فراٸض کا موازنہ کیا جاۓ تو کوئی ایم پی اے ،کوئی جج ،کوئی پولیس آفیسر آۓ اور دوسری تیسری کلاس میں بچوں کو دس منٹ تک پڑھاۓ ۔ یہ ہماری بدبختی ہے کہ معاشرے کا یہ مہذب اور معصوم طبقہ جاٸز حقوق سےمحروم ہو کر میدان میں آگیا ہے ۔اپنے حقوق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے عدالت اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تب بھی اس کی کوئی شنواٸی نہیں ہوتی ۔میرے خیال میں محسنان قوم کے ساتھ یوں ظلم کبھی نہیں ہوا۔حکومت کے پاس سواۓ اس کے کوٸی جواز نہیں کہ اساتذہ اس ملک ، معاشرہ اور قوم کے لیے کوٸی اہمیت نہیں رکھتے ان کا کوٸی کردار ہی نہیں ہے کہ ان کی آواز یا دھاٸی کو سنا جاۓ ۔جاٸز حقوق کی جاٸز جد و جہد اس مہذب طبقے کا حق ہے یہ ریاست ان کی ماں ہے اور یہی طبقہ اس ریاست کی بقا کا ضامن ہے ان شا اللہ یہ اپنے جاٸزحق سے محروم نہیں کیے جاٸیں گے اور حقوق کی یہ جنگ جیت جاٸیں گے