داد بیداد…زراعت کا مستقبل…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہم سبق یا د کر تے ہوئے دہراتے تھے پاکستان زرعی ملک ہے جب ہم نے عملی زند گی میں قدم رکھا تو ہم نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا کہ پا کستان آلو، پیا ز، ٹما ٹر اور گندم سے لیکر دودھ اور گوشت تک ہر چیز بیرونی مما لک سے درآمد کر تا ہے اپنی زرعی پیداوار سے مو لی، گا جر بھی برآمد نہیں کر تا ہم نے اپنے پو توں اور پو تیوں کی کتا بوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس میں اب بھی پرانا سبق مو جو د ہے ہم حیراں ہوئے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کو اتنی بڑی حقیقت کا اب تک علم نہیں ہم اس الجھن میں مبتلا تھے کہ اخبار آگیا اخبار کی شہ سرخی ہے ”سرسبز پا کستان کے لئے پہلا قدم“ ہماری خو شی کی انتہا نہ رہی الجھن بھی دور ہو گئی ہم نے اللہ میاں کا شکر ادا کیا یہ اُس سیمینار کی خبر ہے جس میں وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر” سرسبز پا کستان کے لئے پہلے قدم“کا افتتاح کیا غریب اور ان پڑھ عوام کی سہو لت کے لئے اس کا آسان نا م گرین پا کستان انی شے ٹیو (GPI) رکھا گیا ہے یہ حکومت اور پا ک فو ج کے ایک بڑے منصو بے کا حصہ ہے جس کا نا م سر ما یہ کاری میں سہو لت کا ری ہے ابلا غ میں آسا نی کے لئے اس کو سپیشل انو سٹمنٹ فیسی لی ٹیشن کونسل (SIFC) لکھا جا تا ہے اس سیمینار کے مقررین نے اعلا ن کیا کہ اب پا کستان کو دنیا کی کوئی طاقت ترقی سے نہیں روک سکتی ساتھ ہی وزیر اعظم نے قوم کو بتا یا کہ ایک ماہ بعد ہماری حکومت نہیں رہے گی ان منصو بوں کو آنے والی حکومتیں سنبھا لینگی مو جو دہ زما نے کے خطرات میں بڑا خطرہ غذائی قلت کا خطرہ ہے اس کو دشمنوں کی زبان میں ”فوڈ ان سیکیوریٹی“ کہا جا تا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتا پا لیسی بنا نے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پا لیسی عوام کی سمجھ میں نہیں آنی چاہئیے 1946ء میں متحدہ ہندوستان میں چھوٹے کاشتکاروں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ شہر کے تا جر گاوں آکر ان کی زمینیں خرید لیتے تھے کا شتکاروں کے نما ئندوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد مشرقی پنجاب کی اسمبلی سے ایک قانون منظور کروایا جس کے تحت زرعی زمینوں کے غیر زر عی استعمال پر پا بندی لگائی گئی اس قانون کی وجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کے ساتھ بڑے زمیندار وں کی زمینیں بھی تجارت پیشہ لو گوں کے ہا تھوں میں جا کر ضا ئع ہونے سے بچ گئیں آج زرعی پیداوار کے لئے زمین وافر مقدار میں دستیاب ہے لہلہا تے کھیتوں اور سیمنٹ اور سریا والوں کا قبضہ نہیں ہوا ان کے فائرنگ رینج اور گالف کورس بنجر زمینوں میں نظر آتے ہیں اگر اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالی جا ئے تو ہاوسنگ کا لو نیوں، اور سرکاری عمارتوں کی وجہ سے گزشتہ 50سالوں میں ہماری زرعی زمینوں کا 45فیصد ضا ئع ہو گیا ہے جو 55فیصد بچ گیا ہے وہ بھی مسلسل خطرے کی زد میں ہے زیر کاشت رقبے کا 64فیصد جا گیر داروں کے قبضے میں ہے جو آبادی کے 4فیصد سے بھی کم ہیں ہماری مجمو عی قومی پیداوار (GDP) کا 18فیصد زرعی شعبے سے آتا ہے 1962ء میں زرعی اصلا حا ت منظور کی گئیں جن پر عمل نہیں ہوا 1972ء میں پھر زرعی اصلا حا ت لائی گئیں ان کے خلا ف عدالت سے حکم امتنا عی حا صل کیا گیا چنا نچہ زرعی شعبہ سر نہ اٹھا سکا زراعت کا مستقبل زمینات سے وابستہ ہے اب بھی وقت ہے کہ زرعی زمینات کو غیر زرعی مقاصد کے لئے ضا ئع کرنے پر پا بندی لگائی جا ئے اور عدالتوں کو قانون کا پا بند کیا جا ئے سرسبز پا کستان کے پہلے قدم کو کامیاب بنا نے کے لئے دوست ملک چین کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ہمیں اس بات کی خو شی ہے کہ سر سبز پا کستان کی طرف پہلا قدم اٹھا یا گیا چینیوں کا مقولہ ہے کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے