آسان قرضوں کے نام پر فراڈ…محمد شریف شکیب

کچھ عرصے سےسوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر مختلف ناموں سے اشتہارات دیکھنے کو مل رہےہیں کہ آپ دس ہزار سے 70 لاکھ تک قرضہ لے سکتے ہیں اس کے لئے کسی ضمانتی کی ضرورت نہیں۔اشتہار میں واپسی کی مدت بھی پانچ سال تک دی جاتی ہے اور منافع بھی برائے نام ظاہر کیا جاتا ہے۔مہنگائی کے مارے بے روزگار نوجوان آسان اور فوری قرضوں کے اس جھانسے میں آتے ہیں اور پھر ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر نے بیس ہزار کا قرضہ لیا تھا۔ لون ایپس والوں کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں سے تنگ آکر قرض چکانے کے لئے انہوں نے دوبارہ 43ہزار کا قرضہ لیا۔ اور قرضہ دینے والوں کی دھمکیوں سے دلبرداشتہ ہو کر بالاخر خودکشی کرلی۔راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ محمد مسعود نے مبینہ طور پر خودکشی کرنے سے قبل یہ آخری پیغام اپنی بیوی کے لیے چھوڑا تھا۔کہ” میں بہت برا ہوں۔نہ میں آپ کے قابل ہوں نہ بچوں کے۔میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ ہوسکے تو مجھے معاف کرنا”اور پھر انہوں نے اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔مسعود کی بیوہ نے بتایا کہ ان کے شوہر نے گھر کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے آن لائن لون ایپس سے قرض لیا تھا جس کی واپسی کے لیے ان کمپنیوں کے نمائندے بلیک میل کرتے تھے اور ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔سوشل میڈیا پر قرضہ دینے کی بہت ساری آن لائن ایپس موجود ہیں جو لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہیں۔ ڈیجیٹل قرضہ دینے کی یہ کمپنیاں مختلف ناموں سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں 10000 سے 50000 ہزار تک قرضہ فراہم کرتی ہیں۔ان کمپنیوں کی جانب سے تیز، آسان، بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے اشتہار سوشل میڈیا پر چلتے ہیں جس میں قرضہ لینے والے خواہش مند افراد کو ایک سے دو دن میں قرضہ کی سہولت دینے کا پیش کش کی جاتی ہے۔آن لائن قرضہ دینے والی یہ ایپس پاکستان میں پلے سٹور پر سب سے سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپس میں شامل ہیں۔حکومتی ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے ان ایپس پر اپنا مؤقف دیا تھا کہ ڈیجٹیل قرض دینے والی کچھ ایپس نان بینکنگ کمپنیوں سے منسلک ہیں اور انھیں ایس ای سی پی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس سلسلے میں انھیں لائسنس دیا جاتا ہے یا انھیں سٹیٹ بینک لائسنس دیتا ہے۔ ’تاہم بہت ساری ایسی ایپس بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں جو غیر قانونی ہیں کیونکہ قرضہ دینا ایک لائنسس یافتہ ادارے کا عمل ہے اور پاکستان کا قانون کسی کو نجی طور پر قرضے دینے کی ممانعت کرتا ہے۔ایس ای سی پی کے مطابق اس کی جانب سے لون شارک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض لینے والوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کر لیں جس میں قرض پر سود، سروس چارجز، تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں۔جن لوگوں کو فوری طور پر قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سروس چارجز، جرمانوں اور قواعد وضوابط کی پروا نہیں کرتے۔اسی کا لون ایپ والے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کمرشل بینک طویل کاغذی کاروائی کے بعد 18فیصد سے لے کر 25فیصد شرح سود پرقرضے دیتے ہیں تو لون ایپ والے حاتم طائی بن کر کہاں سے آگئے جو ایک لاکھ پر آٹھ ہزار منافع تین ماہ بعد لینے کا وعدہ کرتے ہیں۔قرضہ دینے والے سرکاری اور رجسٹرڈ پرائیویٹ مالیاتی اداروں کی شرائط بھی انتہائی سخت ہوتی ہیں کوئی شخص مجبوری کے ہاتھوں ان سے قرضہ لینے پر مجبور ہوجائے تو پوری زندگی وہ قرضہ نہیں اترتا۔ لوگ اپنا گھر بیچ کر قرضہ اتارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ملک میں مالیاتی فراڈ کے خلاف قوانین تو موجود ہیں مگر زیادہ تر لوگ قوانین سے ناواقف ہونے یا اپنی مجبوریوں کی وجہ سے قانون کا سہارا نہیں لیتے۔ادارے اپنے طور پر کاروائی نہیں کرتے نہ ہی عدالتیں ان بے ضابطگیوں کا خود نوٹس لے سکتی ہیں۔ اب تک از خود نوٹس لینے کے ججوں کےاختیار پر بھی حکومت نے قدغن لگادی ہے۔سٹیٹ بینک ، محکمہ خزانہ اوروفاقی حکومت کو لون ایپس کےنام سے اربوں روپے کے فراڈ اور لوگوں کی عزت و آبرو اور زندگیوں سے کھیلنے والوں کو انصاف کے کٹہرےمیں لانا چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔