محمد جاوید حیات ۔۔۔۔۔دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔سی ایس ایس کے امیدواروں کا موک انٹرویو ۔۔۔۔۔۔
فیس بک کھولو تو کیا کیا تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں میرے لیے ایک تماشا ان امیدواروں کے موک انٹرویز ہیں جو امیدوارسی ایس ایس کے تحریری امتحان میں کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں یہ اصل انٹرویو کے لیے تیاری کا مرحلہ ہے اس انٹرویو پینل میں بڑے ماہرین بیٹھے ہوتے ہیں انٹرویو کے بعد یہ اس امیدوار کی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اس کی رہنماٸی کرتے ہیں ۔۔یہ مرحلہ عجیب لگتا ہے ۔سارے سوالات رٹے رٹاۓ اور مصنوعی لگتے ہیں اور سارے جوابات بھی ایسے ہی لگتے ہیں ۔امیدوار بچہ تھری پیس سوٹ میں آتا ہے مگر اس کو بچپن سے پڑھایا گیا ہے کہ اس ملک کا قومی لباس شلوار قمیص ہے ۔یہ پہلی مصنوعیت اور دھوکا ہے جب کمرے میں داخل ہوتا ہے سلام کرتا ہے تو پینل کا چیرمین غیروں کی زبان میں اس کو مخاطب کرکے ویل کم کرتا ہے ۔۔پھر کہتا ہے ۔Relax۔۔۔اردو زبان رو رہی ہوتی ہے ۔اس کا تعارف پوچھا جاتا ہے ۔۔introduce your self ..اگر کہا جاتا بیٹا ہم سے اپنا تعارف کراٶ وہ کتنی شاٸستگی آسانی اور بغیر ہچکچاہت کے اپنی زبان میں اپنا تعارف کراتا ۔وہ اٹکتا جاتا ہے کوشش کرتا ہے کہ غیروں کی زبان میں ذرا روانی سے اپنا تعارف کراۓ تاکہ سننے والے متاثر ہو جاٸیں کہ اس کو انگریزی بولنا آتا ہے ۔اسی طرح بے مقصد سوالات شروع ہوجاتے ہیں بڑے موٹے موٹے کتابی سوالات ۔۔۔۔What do you think …Can you tell us ….What about …..Is it possible ….اور پھر عجیب عجیب اصلاحات ۔۔۔بچے کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے رٹ لگا کے یاد کیا ہے ۔اس کی ذہنی صلاحیت ، معماملہ فہمی ، رویہ ، حاضر جوابی ، شاٸستگی ،عوام کے ساتھ پیش آنے کا گر ،قاٸدانہ صلاحیت ، علم دانش ان سب صلاحیتوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔بس وہ انگریزی میں فرفر بولے کیونکہ اسے آگے جاکے انگریزی میں ڈرافٹ لکھنی ہے لوگوں پر رعب ڈالنے کے لیے دو چار لفظ انگریزی کے بولنے ہیں کسی حکمنامے کا جواب دینا ہے ۔میں نے انڈیا والوں کا موک انٹرویو دیکھا سب سوالات جوابات ہندی میں تھے مجھے یقین ہے کہ چینا ، فرانس ، جاپانی ، جرمنی روس وغیرہ میں سول سروس کی اہلیت کے لیے انگریزی میں مہارت کو کوٸی اہمیت نہیں دیا جاتا ۔بندے کی صلاحیتیں دیکھی جاتی ہیں ۔بقول اقبال بندے کو تولتے ہیں ۔اس مخمصے نے ہمارا بیڑھا غرق کردیا ہے ۔ہمارے دفترات اور نظام زندگی سب کچھ اس ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے چل رہا ہے ۔میں خود اپنے سکول میں دسویں جماعت کو انگریزی پڑھاتاہوں۔ہفتے میں ایک دن پورا تعلیمی گھنٹہ انگریزی بولنے میں لگاتا ہوں بچے اس کو ”لینگویچ کلاس“ کہتے ہیں۔ بڑی دلچسپی سے یہ کلاس لیتے ہیں ہم بولتے رہتے ہیں میں آخر میں کہتا ہوں ۔میرےبچو ! انگریزی ہماری مجبوری ہے ۔۔یہ لفظ ” مجبوری “ ادا کرتے ہوۓ میرے تن بدن میں آگ لگتی ہے ۔۔۔مجبوری تو غلامی میں استعمال ہوتا ہے غیرت کے تقاضوں میں اس کا کوٸی عمل دخل نہیں ہوتا گویا کہ میں آخر میں کہتا ہوں کہ پیارے بچو !ہم بدترین غلام ہیں ۔انگریزی بچوں پر تھوپا جاتا ہے ان کی صلاحیتوں کا قتل کیا جاتا ہے ۔یہی طبقاتی تعلیم کی اصل وجہ ہے ۔انگریزی سکولوں میں بچے انگریزی پڑھ کر اس نظام میں بڑی بڑی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اسی طرح غلامی کا ”کلچر “ پنپتا جاتا ہے ہم اپنے اقدار ، روایات اور شناخت خود مٹاتے جاتے ہیں ۔ہم نے ترقی نہیں کرنی ہم نے غلامی کرنی ہے ۔ہماری بدقسمتی دیکھو کہ ہم اپنی قومی زبان کو اپنے دفتروں میں راٸج کرنے کے لیے اپنی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں انگریزی میں درخواست لکھ کر عدالت میں جمع کرتے ہیں عدالت اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اشرافیہ کا ایک طبقہ نہیں مانتا بس نہیں مانتا ۔عوام کیڑے مکوڑوں کا کیا ہے ۔۔کسی عربی سکالر نے سچ کہا کہ عوام کل انعام ہوتے ہیں ۔موک انٹرویز ہماری نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں