داد بیداد.. گُھڑ دوڑ اور گُھڑ سوار…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ایک پہاڑی گھاٹی میں چھوٹا سا گاوں ہے گاوں کے لو گ کھیتی باڑی اور گلہ بانی پر گذارہ کر تے ہیں طرز زند گی سادہ ہے گاوں میں ایک صاحب کی شہرت ہے دور دور سے لو گ ان کو ملنے آتے ہیں ان صاحب کا نا م بہت کم لو گوں کو معلوم ہو گا عام طور پر حضرت کے نا م سے پہچا نے جا تے ہیں ان کے معمو لات میں صبح اشراق سے چاشت تک ڈیڑھ دو گھنٹوں کی مجلس بھی شا مل ہے اس مجلس میں نئے لو گ بیعت ہو تے ہیں پرانے لو گ حضرت کے سامنے چُپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کبھی دور سے آنے والے لو گ واپس جا نے کی اجا زت لیتے ہیں کبھی نئے آنے والے لو گ مسائل پو چھتے ہیں دعا کی درخواست کر تے ہیں کبھی کبھار اس مجلس میں خوا بوں کا ذکر بھی ہو تا ہے جمعرات اور جمعہ کی درمیا نی رات گذری تھی جمعہ کا دن تھا ایک سائل نے خواب سنا نے کی اجا زت ما نگی حضرت کچھ دیر خا موش رہے پھر حضرت نے سر اٹھا کر سائل کی طرف دیکھا اور خواب سنا نے کی اجا زت دیدی اجا زت ملنے کے بعد سائل نے کہا رات میں نے عجیب خواب دیکھا خواب میں دیکھتا ہو ں کہ میں ایک میدان میں کھڑاہوں لو گوں کا ہجوم ہے بہت سارے گھڑ سوار ایک طرف گھڑے ہیں سب کے گھوڑے لو لے، لنگڑے، لا غر اور بیمار ہیں ایک گھڑ سوار ان میں ایسا ہے جس کا گھوڑا تندرست، توانا، چست و چا لا ک اور تیز طرار نظر آتا ہے میں ایک شخص سے پو چھتا ہوں کہ یہ کونسی جگہ ہے اور یہاں کیا ہو رہا ہے وہ شخص کہتا ہے اس جگہ کا نا م پگاہ (Pagah) ہے یہاں گھڑ دوڑ کا مقا بلہ ہے میں نے پو چھا کیا یہ وہی مقا بلہ ہے جس کو شہروں میں ریس (Race) کہتے ہیں وہ شخص اثبات میں جواب دیتا ہے میں پو چھتا ہوں مقا بلہ شروع کیوں نہیں ہوتا وہ شحص کہتا ہے جن کے گھوڑے سست، لا غر، بیمار اور لو لے لنگڑے ہیں وہ مقا بلہ شروع ہونے نہیں دیتے میں پو چھتا ہوں، کیوں مقا بلہ شروع ہونے نہیں دیتے َ؟ وہ شخص کہتا ہے سست اور لا غر گھوڑوں کے ما لکان اور گھڑ سواروں کا مطا لبہ ہے کہ جس کا گھوڑا صحت مند، تندرست اور طا قتور ہے اس کو مقا بلے میں شریک نہ کرو، میں نے پو چھا وہ کیوں ایسا مطا لبہ کرتے ہیں؟ وہ شخص کہتا ہے وہ چا ہتے ہیں کہ تندرست توانا گھڑ سوار کہیں جیت نہ جا ئے اس لئے ان کا خیال ہے کہ گھڑ دوڑ کا یہ مقا بلہ بیمار، لا غر اور لو لے لنگڑے گھوڑوں کے درمیان ہو نا چاہئیے ابھی ہم گفتگو کر رہے تھے کہ میدان خا لی ہو گیا اتنے میں میری آنکھ کھل گئی خواب سنا نے کے بعد سائل خا موش ہوا، حضرت بھی گہرے سوچ میں ڈوب گئے کچھ دیر بعد سراٹھا کر سائل سے پو چھا تمہا را پیشہ کیا ہے؟سائل نے عرض کیا میں گھوڑے اور گھوڑیاں پا لتا ہوں اور گھوڑے بیچ کر معا ش حا صل کر تا ہوں حضرت کے نورانی چہرے پر ہلکی مسکراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے حضرت نے کہا ”گھوڑے بیچ کر سونے والے ہی ایسے خواب دیکھتے ہیں“ اس کے بعد کچھ خا موشی رہی پھر حضرت نے کہا اچھا خواب ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ بیداری کی دنیا میں اگر کوئی مقا بلہ ہونے والاتھا وہ مقا بلہ گہرے بادلوں کی اوٹ میں غا ئب ہوا ہے تم جس مقا بلے کی آس لگا ئے بیٹھے تھے وہ مقا بلہ اب نہیں ہوگاگھوڑے بیچ کر سوجا ؤ اس تعبیر نے سب کو حیرت میں ڈال دیا حضرت نے بات جا ری رکھتے ہوئے کہا داستان یو سف پڑھا کرو، مولانا جا می ؒ نے یہ داستان قرآن پا ک سے لیا ہے اور اس میں اپنی شاعری کا کمال دکھا یا ہے اس میں چار خواب ہیں بچہ خواب دیکھتا ہے اور باپ کو سنا تا ہے وہ کہتا ہے کہ خواب میں سورج، چاند اور گیا رہ ستارے میرے سامنے سجدہ ریز تھے، باپ تعبیر بتا نے کی جگہ نصیحت کرتا ہے کہ تم بڑا آدمی بننے والے ہو یہ خواب اپنے گیا رہ بھا ئیوں کو نہ سنا ؤ ورنہ وہ تمہاری جا ن کے درپے ہونگے قید خا نے کے اندر دو قیدی خواب دیکھتے ہیں ایک قیدی دیکھتا ہے کہ وہ سر پر روٹیاں رکھ کر جا رہا ہے اور پر ندے روٹیاں نوچتے ہیں دوسرا قیدی خواب دیکھتا ہے کہ وہ انگور وں کا رس نکال رہا ہے تیسرا قیدی خواب سن کر تعبیر کر تا ہے کہ روٹیوں والا پھا نسی چڑھے گا، رس نچوڑنے والا زندان سے آزاد ہو گا باد شاہ خواب دیکھتا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں اور سات لا غر گائیں ہیں تین انا ج کی سات ہری بالیں ہیں اور سات سوکھی بالیں ہیں جب یہ خواب تعبیر بتا نے والے کو سنا یا گیا تو اس نے پو چھا یہ خواب جس نے دیکھا اُس کا پیشہ کیا ہے؟ ان کو بتا یا گیا کہ یہ خواب باد شاہ نے دیکھا ہے تو تعبیر یہ بتا ئی کہ سات سالوں کے لئے قحط سا لی ہو گی خواب کی تعبیر خواب دیکھنے والے کی سوچ، فکر اور حیثیت کے مطا بق ہو تی ہے حضرت نے خا مو شی اختیار کی تو خواب سنا نے والے نے کہا اگر مولانا جا می زندہ ہو تے تو میرے خواب کو پا نچویں خواب کا در جہ دیتے، حضرت نے کہا شکر کرو تیرے خواب میں گھڑ دوڑ نہیں ہوا خواب میں اگر تندرست گھوڑے کو با ہر نکا ل کر بیمار، لا غر اور لو لے لنگڑے گھوڑوں کا مقا بلہ ہو تا تو اس کی تعبیر کوئی نہ ہو تی