دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھاٸی ہے ۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات

یہ گورنمنٹ ہاٸی سکول واشچ چترال اپر کے ایک بچے کی تقریر کا وہ جملہ تھا جسے ادا کرتے ہوۓ بچے کا پورا وجود لرزہ براندام ہوتا تھا بچے اپنی مٹھی بھینج کر بازو ہوا میں لہراتا ایسا لگتا کہ یہ ایک لڑاکو سپاہی ہے دشمن کی سرحد پہ کھڑے بندوق مضبوطی سے تھامے دشمن کو للکار رہا ہے ۔یوں اکثر ہوتا ہے جو بھی اس مٹی سے پیار کرتا ہے اس کی حرکات و سکنات ، الفاظ اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اس بندے سے حب الوطنی کی خوشبو آتی ہے ۔وطن سے محبت انسان کی شناخت ہے اگر وہ آزاد ہے وطن اس کا اپنا ہے تو وہ خوش قسمت ترین انسان ہے ۔وطن عزیز ہمارا اپنا ہے جتنا یہ کسی وزیر اعظم ، کسی جنرل ، کسی بیروکریٹ ، کسی امیر کبیر کا ہے اتنا ہی ہم جیسے غریبوں کا ہے اگر کسی جنرل کو اس مٹی پہ قربان ہونا ہے توان کے پاس بھی ایک جان ہوتی ہےوہ اس پہ نچھاور کر دیتا ہے اگر کسی سپاہی کو جان دینی ہوتی ہے تو وہ وہی اپنی ایک جان ہتھیلی پہ رکھ کے پیش کرتا ہے اگر یہی قربانی کسی بیروکریٹ کسی امیر کبیر کو دینی ہو تو اس کا جذبہ اور اس کی کیفیت بھی یہی ہونی چاہیے ۔۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم حفاظت صرف سرحدوں کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔معیشت کی حفاظت ، اس ملک کی دولت کی حفاظت ، اس کے اثاثوں کی حفاظت ، اس کے نظریے کی حفاظت ، اس کے خزانے کی حفاظت ہمارے نزدیک کوٸی اہمیت نہیں رکھتی حالانکہ اصل حفاظت ان چیزوں کی ہوتی ہے۔وطن عزیز کو اللہ نے مخلص باشندوں کے علاوہ ہر نعمت سےمالا مال کیا ہے ۔کاش جذبہ تعمیر اور احساس ذمہ داری کی دولت بھی ہمیں عطا کرتے ۔اس بار وطن عزیز کی عمر چھہتر سال ہو گٸ تھی ۔۔یہ جشن آزادی چھہترویں تھی ۔ہر کہیں بڑا جوش و جذبہ تھا رنگا رنگی تھی ۔اظہار عقیدت تھا ۔۔پیار اور حفاظت کی قسمیں تھیں ۔گورنمنٹ ہاٸی سکول واشچ میں بھی یکم اگست سے تقریب کی تیاریاں تھیں بچے جوش و خروش سے تیاریوں میں مصروف تھے آخر تقریب کی تاریخ آگئی ۔۔سکول کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔یہاں پر کسی بہت بڑے سیاستدان ، کسی بیروکریٹ ، کسی جاگیردار وغیرہ کی آمد نہیں تھی سرکاری لوگوں میں لے دے کے تھانہ تورکھو کا ایک سپاہی تھا جو سکول کی بڑی گیٹ کے قریب کھڑا گویا اپنی ڈیوٹی کی ستم ظریفیاں سہہ رہا تھا ۔گاٶں سے خواتین وحضرات جوق در جوق سکول کی طرف آ رہے تھے اس علاقے میں 8 شہدا اسودہ خاک ہے ان کے ورثا تشریف لاۓ تھے ایک شہید کیپٹن کےابو صبح سویرے آکر قران خوانی میں شامل ہوۓ تھے ۔محفل کے میر تحصیل چیرمین میر جمشید الدین تھے باقی بچے پاکستان کی خوبصورت جھنڈیوں پلے کارڈز اور بیچ لگاۓ محفل کو رونق بخش رہے تھے ۔پرچشم کشاٸی میں شہدإ کے ورثا جن کو ہار پہنایا گیا تھا سبز جھنڈے کے نیچے قطار میں کھڑے تھے ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا بچوں نے مختلف ایٹمز پیش کیے وطن عزیز کے ساتھ اپنی عقیدت کا بھرپور اظہار کیا حاظرین نے ان کی صلاحیتوں کو داد دی ان کو انعامات سے نوازا ۔اساتذہ کی کاوشوں کو شاباش دی معروف سماجی کارکن سفیر اللہ نے اپنے خیالات کا بھر پور اظہار کیا علاقے کے لیے اپنی خدمات اور ادارے کے قیام میں اپنی کاوشوں کا ذکر کیا چیرمین عظمت اللہ، چیرمین پی ٹی سی کونسل مغل ولی شاہ اور دوسروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔کیپٹن اجمل شہید کے ابو نے اپنے شہید فرزند کے نام پر سکول کو ایک معیاری ساونڈ سسٹم گفٹ کیا ۔۔چیرمین تحصیل تورکھو موڑکھو میر جمشید الدین نے بچوں کو اپنی طرف سے ٹرافیاں اور میڈلز سے نوازا سکول کے مساٸل حل کرنے کا وعدہ کیا ۔اسی مقرر بچے کا جملہ ” ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھاٸی ہے “ بار بار محفل میں سرایت کر رہا تھا ۔مفتی عبد الواحدنے پاک سر زمین کی ترقی و خوشحالی کے لیے دعا کی ۔آخر میں بچوں نے پاک سر زمین زندہ باد کے نعرے لگاۓ ۔۔ نعرہ اس پاک دھرتی کے پربتوں سےٹکرایا ۔اس کی سرحدوں کے محافظوں کی بندوقوں سے ٹکرایا اس کے لیے دعا کرنے والوں کی دعاٶں سے ٹکرایا اس کے اساتذہ کے دلوں سے ٹکرایا اور اس کے معصوم بچوں کی آنکھوں سے ٹکرا کر ان میں شبنم بن گیا شبنم کا قطرہ دھرتی پہ گرے گا اور اس کو سرسبزو شاداب کرے گا۔۔ اوپر سورچ اپنی تمازت بھول کر ہماری سروں پہ کھڑامسکرا رہا تھا ۔۔۔” ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھاٸی ہے “

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔