دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔ایک شرین سخن کی جداٸی۔۔۔۔…محمد جاوید حیات

زندگی کی ایک تلخ حقیقت موت ہے اور یہ حقیقت زندگی کو خوبصورت بھی بناتی ہے جب زندگی خوبصورت ہو تو موت اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہے کبھی کبھی انسان مر کر بھی یادوں کے سکرین پرزندہ ہی رہتا ہے ۔۔۔سردار میکی بھی ایسا ہی ایک کردار تھے دنیا کو رنگ و بو کی عینک لگاکر بھی دیکھا تھا اور خزان و بہار کی بوقلمونیوں کو بھی قریب سے دیکھا تھا ۔۔سردار میکی تورکھو کے خوبصورت گاٶں راٸین میں خودان کے مطابق 1952 کو پیدا ہوۓ تھے خاندان متمول اور علمی تھا سکول پڑھا اور 1967 کو مڈل سکول ورکھوپ سے مڈل پاس کیا وہاں سے پشاور چلے گۓ پشاور میں چترالی بازارمیں دکان کھول کر چترالیوں کی خدمت گار اور سرپرست کے طور پرزندہ رہے ۔زندہ دل تھے مرنجان مرنج طبیعت تھی خدمت اورشرافت سے سرشار تھے کھرے سچے تھے اس زمانے میں چترالی جب پشاور جاتے تو ان کو رہنماٸی کی ضرورت ہوتی اس مہا کام میں سردار میکی پیش پیش ہوتے ۔سردار میکی فٹ بال کے اچھے کھیلاڑی تھے ڈیفس میں کھیلتے جب ترنگ میں آتے تو ننگے پاٶں کھیلتے ۔کٸ سال پشاور میں گزارنے کے بعد چترال آۓ شاہی بازار چترال میں دکان کرنے لگے دکان اپنی تھی کراۓ کی نہ تھی۔خدمت خلق اسی طرح برقرار رہی ۔۔ہر دلعزیز تھے اس لیے حلقہ یاران بڑاتھا ۔بازار کے ساتھی کاروباری کےساتھی دوست احباب رشتے ناطے سب ان کے گرویدا تھے ۔ہسپتال میں کوٸی مریض ہو عدالت میں کوٸی پیشی بھگت رہا ہو کوٸی کسی اور مجبوری کا سامنا کر رہا ہو سردار میکی ان کے دست راست بنتے ۔۔وہ خاندان، قوم، قبیلہ وغیرہ شناختوں سے اپنے آپ کو بلاتر رکھتے محمد حسین میکی اور آپ صرف خدمت کے لیے دوڑ دھوپ کرتے۔ خدمت بھی بے لوث ہوتی ۔۔۔سردار میکی نے دنیا کے بکھیڑوں سے ساری زندگی اپنے آپ کو آزاد رکھا شادی تک نہیں کی ۔۔خاندان والوں کی سرپرستی کی ۔۔چترال بازار میں ہمارا ایک گروپ ہوا کرتا تھا اس میں عبد الولی خان خاموش میں اور سردار میکی شام کا کھانا اورناشتہ صدیق کے ہوٹل(ملفت خان ہوٹل )میں کرتے ۔۔صدیق خصوصی طور پر ہمارے لیے کھانا چاۓ اور ناشتہ بناتے ۔اس نشست میں خوش گپیاں ہوتیں۔ علمی بحث ہوتے ۔۔موجودہ دورکے تقاضوں پر تبصرے ہوتے ۔کھوارزبان کے پرانے اصطلاحات اورالفاظ پربحثیں ہوتیں ۔۔سردار میکی بڑے پڑھاکو تھے روز مختلف اخبار پڑھتے میں ان کے لیے کتابیں لاتا وہ روز مجھے یاد دلاتا کہ تمہاری فلان کتاب میرے پاس محفوظ ہے۔سردار میکی بہت پیارے تھے ان کی باتیں ان کی یادیں مشام جان ہیں ۔۔وہ میرا نام لے کر (اے جاوید حیات ) کہہ کر مخاطب کرتے ۔وہ چترال کے ادبی شخصیات کا بڑااحترام کرتے کہتے مولانگا ادب کو یتیم کر گۓ گل نواز خاکی پھر پیدا نہیں ہوگا فیضی ہماری پہچان ہیں ۔۔سب کی ساری نگارشات ان کے پاس محفوظ تھیں ۔۔پہلی فرصت میں نٸ کتاب خریدتے۔۔وہ تہذیب و ادب کی چلتی پھرتی اکیڈیمی تھے ۔ہم ایک حوالے سے محروم ہوگۓ ۔ایک دو مہینے بیمار رہے اور 16 اگست کے عصر کے وقت وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔ ہم نےایک شرین سخن کھو دیا ۔۔۔اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔۔۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔۔۔۔۔سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔