سرکاری ملازمین کیخلاف انتقامی کاروائیاں.۔۔ محمد شریف شکیب

سیاسی احتجاج میں شرکت کرنے والے خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری محکموں کے ایک ہزار ملازمین کے خلاف کارروائی آخری مرحلے میں داخل ہوگئی۔احتجاج میں شریک سرکاری ملازمین کو متعلقہ محکموں کی جانب سے تین متبہ اظہار وجوہ کے نوٹس بھجوائے گئے تھے۔سرکاری ذرائع کے مطابق پہلے دو شوکاز نوٹسوں پر بہت کم سرکاری ملازمین نے متعلقہ محکموں میں جواب جمع کرائے۔احتجاج میں شریک بیشتر سرکاری ملازمین کا تعلق محکمہ داخلہ، بلدیات ، تعلیم اور صحت سے بتایا جاتاہے۔ احتجاج میں شریک سرکاری ملازمین کی فہرستیں سپیشل برانچ کی ویڈیو رپورٹس کے ذریعے تیار کی گئی ہیں۔تیسرے شوکاز نوٹس کے بعد تسلی بخش جواب نہ ملنے پر سرکاری ملازمین کے خلاف برطرفی آرڈیننس کے تحت کارروائی ہوگی۔تمام سرکاری محکموں کے افسران اورملازمین کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ماضی میں انہی سرکاری ملازمین کو سیاسی جلسوں میں شرکاء کی تعداد بڑھانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔پٹواریان و قانون گویان ایسوسی ایشن کے سابق صوبائی صدر ولی محمد جدون نے بھرے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ڈپٹی کمشنروں، کمشنروں، سرکاری محکموں کے سربراہوں سے لے کر گورنر، وزیر اعلی، وفاقی و صوبائی وزیروں، مشیروں، صدر،وزیر اعظم۔ سپیکر اور چیئرمین سینٹ تک سب کے دوروں کے اخراجات محکمہ مال کی ذمے ڈالے جاتے ہیں۔ان کے کھانے پینے، شکار کرنے اور دیگر عیاشیوں کا خرچہ بھی پٹواریوں کو اٹھانا پڑتا ہے وہ رشوت نہیں لیں گے تو یہ بھاری اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔برسر اقتدار جماعتیں سرکاری ملازمین کو اپنے گھروں کی لونڈیاں سمجھتے ہیں۔ان سے اپنے سیاسی مفادات کے لئے کام لینا جائز اور عین قانونی گردانتے ہیں۔9 مئی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کو گرفتار کرنے کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔جب لاکھوں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو شرپسند عناصر بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریبی کاروائیاں کرتے ہیں ماضی میں بیرون ملک توہین رسالت کے خلاف احتجاجی جلسوں کے دوران نجی و سرکاری عمارتوں، پٹرول پمپوں اور بینکوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر احتجاج کے دوران جس قدر لوٹ مار اور گھیراو جلاو کے واقعات رونما ہوئے وہ بھی ریکارڈ پر ہیں۔پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے یہ الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ عوامی احتجاج کی آڑ میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت اور لاہور میں کور کمانڈر ہاوس اور جناح ہاوس کو نقصان پہنچایا گیا تاکہ اسے مخالف سیاسی پارٹی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی چیز عوام سے محفی نہیں رہتی۔ارباب اختیار و اقتدار کوملک بھر میں جاری بدترین انتقامی کاروائیاں فوری طور پر بند کرکے قومی اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ مملکت خداداد مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بقول راحت اندوری۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔