ہم قرآن کے آئینے میں  ۔۔ تحریر: اقبال حیات اف برغذی

گزشتہ ہفتے اپنی جمعے کی تقریر میں شاہی جامع مسجد کے خطیب محترم خلیق الزمان صاحب نے خواتین کے پردے کی اہمیت پر سیر حاصل تقریر کی جو اس وقت چترالی معاشرے کو درپیش اہم مسئلہ ہے۔ اور یہاں کے روایتی پردہ دار خواتین میں بازر کی زینت بننے کا رجحان روز بروز بڑھتا جارہا ہے ۔جو چترال کی خصوصی معاشرتی زندگی کے حسن کو بگاڑنے کا سبب بنتا جارہا ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ بحیثیت مسلما ن ہم قرآن کو اللہ رب العزت کا کلام اور بنی نوع انسان کے لئے ضابطہ حیات تسلیم کرتے ہیں اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ احتراماً بوسہ دیتے ہیں خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر طاق میں سجاتے ہیں مگر قرآن کے تقاضوں کی برآوری کی صؤرت اور رنگ ڈھنگ ہم میں نظر نہیں آتی زندگی کے تمام اسلوب من چاہے زندگی کے حامل ہوتے ہیں۔اور افکار ،گفتار اور کردار میں خدا خوفی کا احساس نہیں ملتا۔ قرآن عورت کو چار دیواری کے اندر رہنے اور جہالت کے دور کی طرح بن سنور کر گھر سے باہر نکلنے سے منع کرتا ہے۔ مگر آج اس حکم کی تعمیل کو پس پشت ڈالکر عریانی کی کیفیت میں بازار کی زینت بننے اور نامحرموں سے مسکراتی ہوئی آزادانہ گفتگو کرنے کا شوق سرپر سوار ہے اور شرم وحیا کی اسلامی صفت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ قرآن مسلمان کوغصے پر قابو رکھنے اور عفو درگزر کے وصف کا حامل گردانتا ہے۔ مگر ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو غیرت کی علامت کے طور پر اپناتے ہیں۔ قرآن والدین کے سامنے  “اف” تک کہنے سے احتراز کی تلقین کرتا ہے۔ مگر اج پوری معاشرتی زندگی اولاد کی نافرمانیوں پر نوحہ کنان ہے ۔قرآن غیبت سے اجتناب کی تلقین کرتے ہوئے اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کرتا ہے۔ آج ہمار وجود اس بدتریں فعل سے متعضن ہے۔ قرآن مسلمان بھائیوں کے باہمی تنازعات کو صلح وصفائی سے نمٹانے کی ہدایت کرتا ہے۔ مگر آج اس قابل فخر عمل کی مہک سے انسانی وجود خالی ہےقرآن لہو لعب سے گُریز کو مسلمان کی صفت قراردیتا ہے مگر آج کانوں میں ہیڈ فون ٹھونسنے سے چوبیس گھنٹے گانے سے سرو رحاصل کیا جاتا ہے۔ قرآن حرام خور ی اور جھوٹ سے اجتناب کا درس دیتا ہے۔ مگرآج سربراہ حکومت سے لے کر چپڑاسی تک ان اعمال بد سے اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا سنوارنے میں مگن ہے۔ قرآن زنا کے قریب تک پھٹکنے سے روکتا ہے۔ مگر دلوں میں اس کی آس مچلتی رہتی ہے۔ قرآن زمین کو پھاڑنے اور پہاڑوں کی چوٹیوں تک اونچا ہونے کی حیثیت سے عاری انسان کو کبروغرور سے منع کرتا ہے ۔ مگر آج پیٹ بھرتے ہی آنکھیں زمین کی طرف آنے کا نام نہیں لیتیں۔
قرآن ایک دوسرے کے عیوب کو چھپانے کی ہدایت کرتا ہے اور ہم ہر کسی میں عیب ڈھونڈ کر اس کے پرچار کا شوق رکھتے ہیں۔ قرآن شکر گزاری کی نصیحت کرتا ہے۔ اور ہم اللہ رب العزت کی طر ف سے ودیعت کردہ انواع واقسام کی نعمتوں کی فراورانی کے باوجود مفلوک الحالی کے نوحہ کنان ہیں۔قرآن فضول خرچی کرنےو الوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے۔ اور ہم اس رشتے کو نبھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ قرآن اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرنے اور خود اس پر قائم رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اورہم اس عمل کی بجا آوری پر دنیاوی امور کو ترجیح دیتے ہیں۔
الغرض ہر اس عمل کی طرف ہمار ا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس پر قرآن قدعن لگا تا ہے۔ پھر بھی بقول غالب
    کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب
    شرم تم کو مگر   نہیں   آتی
کے مصداق مسلمان لفظ سے خود کو منسوب کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔