ملک گیر بل جلاو مہم…محمد شریف شکیب
بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمارکے خلاف ملک بھر مین احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر رہے ہیں۔معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتیں بھی احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں جنہوں نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی حمایت کی تھی۔کراچی سے خیبر اور گوادر سے چترال تک ہر جگہ مظاہرے ہورہے ہیںلوگ بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور واپڈا کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔تاجروں، فلور ملز مالکان اورزندگی کےمختلف شعبوں سےتعلق رکھنےوالے افرادبھی احتجاجی مظاہروں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔سابقہ حکمرانوں کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سبسڈی ختم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط کے پیش نظرکیاگیا ہے۔ حالانکہ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں کبھی سبسڈی نہیں ملی۔ زیادہ تر بجلی ہائیڈل پاور سٹیشنوں سے پیدا ہوتی ہے جس کی پیداواری لاگت صرف تین روپے یونٹ ہے۔ تھرمل پاور سٹیشنوں، شمسی توانائی، کوئلے اور جوہری پلانٹ سے جو بجلی تیار ہوتی ہے ان سب کو نیشنل گرڈ میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کی قیمت بارہ روپے یونٹ مقرر کی گئی تھی گذشتہ ایک سال کےاندربجلی کی قیمت نہ صرف بارہ روپے یونٹ سے بڑھا کر اٹھائیس روپے یونٹ کردی گئی بلکہ اس میں آٹھ مختلف اقسام کے ٹیکسز بھی شامل کئے گئے اور صارفین کو بجلی کا ایک یونٹ اب پچاس روپے میں پڑتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہر سو یونٹ کے بعد قیمت ڈبل ہوجاتی ہے۔ ایک متوسط خاندان کا بل دو سال پہلے ہزار پندرہ سو روپےآتا تھا اب پندرہ سے بیس ہزار آنے لگا ہے۔ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری نےعوام کی کمر توڑ دی ہے دوسری جانب بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئےروز اضافے نے عوام سےجینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ بیس پچیس ہزار روپےماہانہ کمانےوالا آدمی اپنے گھر کا چولہا گرم رکھے گا، بچوں کےتعلیمی اخراجات اٹھائے گا، علاج معالجہ کرائے گا،مکان کاکرایہ ادا کرے گا یا بجلی اور گیس کابل دے گا۔اسی وجہ سے لوگ اپنے بچے فروخت کررہے ہیں اور بعض لوگ خود کشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہورہےہیں۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہمیشہ خسارے کا رونا روتی ہیں۔بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانا انہی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے جسے وہ اب تک نہیں نبھاسکین۔ وفاقی اورصوبائی محکموں کے ذمےکئی سالوں سے اربوں روپے کے بقایا جات ہیں ان کی وصولی نہیں ہوپارہی اور نہ ہی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں نادہندہ اداروں کی بجلی کاٹنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اگر عام آدمی کسی وجہ سے ایک مہینے کابل ادا نہ کرسکے تو اگلے مہینے اس کا میٹر ہی کمپنی والے اتار لے جاتے ہیں حالانکہ میٹر صارف کی ملکیت ہوتی ہے۔بل کے ساتھ میٹر کا کرایہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔یہ ایسی ہی صورتحال ہےکہ کوئی آپ سے آپ کے ذاتی گھر کا بھی کرایہ وصول کرے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کےلئے پندرہ سال قبل عوام سے ایک سال کے اندر چھ ارب روپے وصول کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اب تک این ایل جے سرچارج کے نام پر پچاس ارب سے زیادہ وصول کئے جاچکے ہیں عدالت نے یہ سرچارج ختم کرنے کا فیصلہ بھی دیا تھا مگر یہ غنڈہ ٹیکس ابھی تک وصول کیا جارہا ہے۔ جو لوگ کنڈے ڈال کر بے تحاشہ بجلی استعمال کرتے ہیں انہیں بھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکاروں کی اشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ خود بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لاکھوں ملازمین مفت بجلی استعمال کرتے ہیں اور اس کا بوجھ بھی عوام پرڈالا جاتا ہے۔ چترال، دیر،سوات اور ہزارہ میں چھوٹے پن بجلی گھروں سے دو تین روپے یونٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اسے بھی نیشنل گرڈ میں شامل کرکے وہاں کےصارفین پر پچاس روپے یونٹ بجلی فروخت کی جاتی ہے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اب لوگ اس ظلم ناروا کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار کو ہنگامی بنیادوں پر یہ اہم قومی مسئلہ حل کرنے پر توجہ دینے ہوگی۔ اگر اس آگ کو مزید ہوا مل گئی تو بہت کچھ جل کر خاکستر ہوجائے گا اور کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔