مہنگی بجلی کے ذمہ داروں کاتعین۔۔۔محمد شریف شکیب
بجلی کے بلوں میں بھاری بھر کم ٹیکسوں کی وجہ سے بل ادا کرنا عام صارفین کی استطاعت سےباہر ہوگیا ہے۔ایک پنکھا اور دو بلب جلانے پر دس پندرہ ہزار کا بل بھیجا جارہا ہے جس میں بجلی کی قیمت سے زیادہ ایک درجن ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔اب بلوں کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہورہے ہیں۔ لوگ اپنی عزتیں اور بچے نیلام کر رہے ہین۔ عوام کی طرف سے مہنگی بجلی کے ذمہ داروں کےخلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں نگران حکومت کی جانب سے نرخ کم کرنے کے معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صورتحال مزید تشویشناک ہوگئی ہے۔حکومت کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانےکی چالیں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کی وجہ سے بجلی کی قیمت کم نہیں کی جاسکتی۔ بھاری بل ادا کرنے کے لئے لوگ اپنے گھر کا سامان بیچ رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتیں عوام کا دکھ دور نہیں کر پارہیں۔ بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک 1994 میں شروع کی گئی توانائی کی پالیسی تھی۔دیہات اور دور دراز شہروں کو بجلی فراہم کرنے کے بدلے ان سے ووٹ مانگے جا رہے تھے۔صنعت اور گھریلو ضرورت کے لئے بجلی کافی تھی لیکن نئے کنکشن سے طلب بڑھ گئی۔کم پیداوار کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھی تو برق رفتاری کے ساتھ تین ماہ کے اندر اس وقت کی حکومت نے تیرہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے لئے 70 لیٹرز آف انٹینٹ جاری کیے۔ 27کمپنیوں کو 6,335 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے فرم لیٹرز آف سپورٹ جاری کیے گئے۔1994کی پالیسی پاکستان کے توانائی کے مکس فارمولہ میں فیصلہ کن تبدیلی لائی۔ 1994میں 11,000میگاواٹ کی کل صلاحیت میں سے 60 فیصد پن بجلی سے اور صرف 40 فیصد تھرمل صلاحیت سے حاصل کی جاتی تھی۔ اگلے چند برسوں میں درآمد شدہ ایندھن کی بنیاد پر تھرمل صلاحیت کو 60:40سے 30:70تک تبدیل کر دیا گیا۔ یوں بجلی مہنگی ہونے کا پہلا سامان کیا گیا۔ہر سال یہ تناسب سردیوں کے مہینوں میں مزید کم ہو کر 20:80 تک چلا جاتا ہے کیونکہ دریاوں میں پانی کے کم بہاو کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار کم ہو جاتی تھی۔ان معاہدوں میں سب سے خوفناک شق کیپسٹی چارجز کی تھی جس کے مطابق بجلی کارخانہ سے حکومت اگر پوری پیداواری صلاحیت سے پچیس فیصد کم بجلی حاصل کرے تو پھر بھی اسے سو فیصد صلاحیت کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔یعنی جو بجلی استعمال نہیں کی اس کا بل بھی پرائیویٹ پروڈیوسر کو ادا کیا جا رہا ہے۔یہی استعمال نہ کی گئی بجلی کی قیمت گردشی قرضہ بن گئی جو اب ڈھائی ہزار ارب روپے کو چھو رہا ہے۔ جون 1998 میں حکومت مخالف جماعتوں نے”غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ تمام معاہدوں کی منسوخی” کا مطالبہ کیا، قیمتوں کے تعین کے فارمولے پر نظرثانی کے فیصلے پر کہا گیا کہ حکومت نے بھاری کمیشن کے عوض آئی پی پیز کو نرخ بڑھانے کی اجازت دی تھی۔حکومت نے شکایت پرکوئی معاہدہ منسوخ نہیں کیا۔حالیہ دنوں بجلی بلوں کے معاملے پر عوامی تنقید بڑھی تو پیپلز پارٹی نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے بجلی کے بلوں پر ایک ٹیکس کے بعد دوسرا ٹیکس عائد کیا جس کی وجہ سے مہنگائی سے متاثرہ عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اپنے دور اقتدارکے دوران 300 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی۔ پی پی کے مطابق اسحاق ڈار صرف عوام پر ٹیکس لگانے کے ماہر ہیں۔پی پی رہنماوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج جمہوریت کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ ریلیف دینا پڑے گا۔پی پی پی مسلم لیگ ن پر جوابی الزام لگا رہی ہے کہ مسلم لیگ نے اپنے دور حکومت میں 480 ارب روپے کی خطیر رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری کے بغیر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرزکو دی، پی پی کے اس الزام میں حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ سابق آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر نے جب اس ادائیگی پر اعتراض کیا تو اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار برہم ہو گئے تھے۔عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس گٹھ جوڑ کو میثاق جمہوریت کا نام دیدیا گیا۔ وقت آ پہنچا ہے کہ بجلی کے زیادہ نرخوں کے ذمہ دار وں کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ اس طرح کی ڈیل سے کس کو فائدہ ہوا؟ اور کس نے عوام کا استحصال کیا؟آئی ایم ایف کی شرائط محض بہانہ ہیں۔خرابی کا آغاز بیس پچیس سال قبل اس وقت شروع ہوا جب پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے کمیشن کی خاطر تیل سےمہنگی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے گئے آج وہ منصوبے عوام کے گلے پڑ گئے ہیں۔مسلم لیگ کی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں ملکی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کی تھی مگر بوسیدہ ٹرانسمیشن لائینیں اس کا بوجھ نہیں اٹھاسکتیں۔ کسی حکومت نے نئی ٹرانسمیشن لائن بچھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اب اگر پچاس ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے تو موجودہ لائنیں اٹھارہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ لوڈ نہیں اٹھاسکتیں۔اس لئے مستقبل قریب میں عوام کو بلاتعطل بجلی ملنے کا خواب شرمندہ تعبیرہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر بجلی کےبلوں سے ناجائز ٹیکس ختم کئے جائیں تو یہ غنیمت ہوگی۔