ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ کے تحت چترال کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں میگا ریلیف پراجیکٹ مکمل

چترال(چترال ایکسپریس ) بین الاقومی فلاحی تنظیم ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ کے تحت چترال کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں میگا ریلیف پراجیکٹ مکمل کرلی۔ اس سال سیلاب اور طوفانی بارشوں نے جہاں پاکستان کے دیگر اضلاع میں تباہی پھیلائی وہیں چترال کے زیریں اور بالائی اضلاع بھی بری طرح اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ہیلپنگ ہینڈ نے چترال کے دونوں اضلاع میں ڈپٹی کمشنر آفسز کی جانب سے جاری کر دہ ہدایات کی روشنی میں سیلاب متاثرین میں پکا ہوا کھانا، ٹینٹس، عارضی شیلٹرز، فوڈ پیکجز، تارپولین شیٹس، کیچن سیٹس، ہائیجن کٹس کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فری میڈیکل کیمپس کا بھی انعقاد کیا۔ ہیلپنگ ہینڈ نے سیلاب متاثرین کے لیے چترال میں سب سے پہلے ایک بڑا ریلیف پیکج فراہم کیا۔ فلاحی تنظیم پاکستان سمیت پچاس سے زیادہ ممالک میں کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں ایک سو گیارہ اضلاع میں تعلیم، صحت، ایمرجنسی ریلف، یتیم بچوں کی کفالت، سکلز ڈویلپمنٹ، یوتھ ایمپاورمنٹ، معذور افراد کی جامع بحالی سمیت تیرہ مختلف پروگرامز کے ذریعے خدمت خلق میں مصروف ہے۔ چترال میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں خاندان بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی درخواست پر ہیلپنگ ہینڈ نے چترال کے ان تمام متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا جہیں سیلاب نے شدید متاثر کیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں مینجر ایمرجنسی ریلیف اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پروگرام ساجد علی چھڈھر اور ریجنل مینیجر خیبرپختون خواہ امین اللہ کی قیادت میں ان تمام علاقوں کا دورہ کرکے تمام متاثرہ خاندانوں کو امدادی سامان مہیا کیا گیا۔ ادارے کے ضلعی کوآرڈینیٹر محمد شجاع الحق بیگ کے مطابق اس پراجیکٹ کا تخمینہ 15 ملین روپے کا تھا جو کہ کامیابی سے مکمل ہوا۔ اس سلسلے میں چترال کے دونوں اضلاع میں خشک خوراک، ہائجین کٹس، کچن کے سامان، ترپالین، جیری کن اور خیمے تقسیم کئے گئے۔ اس حوالے سے میرگرام، پاور، بریپ، رومبور، آیون، چترال سٹی، گولین، کوغذی اور آوی کے مقام پر علحیدہ پروگراموں میں مستحقین میں امدادی سامان تقسیم کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کالاش ویلی میں رومبور کے مقام پر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ چترال کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا گیا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔