یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے۔ تحریر۔۔۔۔مبشرالملک
رجیم چنچ کی تکلیف دہ عمل کے بعد ۔جہاں ہزار روپے میں بیس کلو آٹا ۔ساٹھ ستر روپے میں چینی۔ ایک سو دس سے تیس میں کلو گھی۔ پندرہ سو میں ٹوٹا چاول بیس کلو۔ ایک سو چالیس روپے میں ڈیزل و پیٹرول ۔ڈالر ایک سو ساٹھ سے ستر ۔7۔6کی معاشی گروتھ۔ قوم مشکل حالات کے باوجود خودی ۔اعتماد اور تبدلی کے سفر پر گامزن۔ لیکن ستر سالوں کی کاسہ لیسی ۔ذہنی غلامی کے دلدادہ با اثر اشرفیہ اور طاقت کے مراکز کو قوم کی یہ تبدیل اور آزادی کا سفر ۔ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اور عالمی غنڈے کی دھمکی نے ۔۔۔۔ گھر کی بھدی کے ہاتھوں لنکا ڈھا دی۔ اور پی ڈی ایم کے حریصوں میں ۔۔۔ ایک انار سو بیمار ۔۔۔ کے مثل حکومت بانٹ دی ۔۔۔انہوں نے سترہ مہینوں میں ملک کو اس حال تک پہنچایا کہ قوم پکار اٹھی کہ اللہ ۔۔۔ گنجے کو ناخن نہ دے۔۔۔ عمرانی بے لچک رویے اور اناڑی سیاست نے انہیں سب کچھ پارلمانی پلیٹ میں سجا کر دے دیا تو ۔۔۔۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔۔۔ انہوں نے آئین ۔قوانین کا منہ کالا کرکے ذاتی مقاصد ۔۔۔۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق پوری کر دییے ایک مشینی برایلر ٹایپ اپوزیش نے بھی سخاوت کے گنگا میں ۔۔۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ۔۔۔۔ کا نعرہ مستانہ لگا کر چھلانگ لگا دی۔ کپڑے بیج کر ملک سنوارنا تو بہت دور کی بات ایک جوݱا کپڑا بھیج کر کسی ایک غریب کا تن ڈھاپنے کی جگہ پوری قوم کے کپڑے اتار کر یہ ضرب مثل درست ثابت کردی کہ ۔۔۔ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ۔9مئی کے دل خراش سانحے کے بعد دور اندیشوں کی دور اندیشی ۔تجزیہ کاروں کے تجریے۔سیاست دانوں کی سیاست علماء کی فراصت ۔جنریلوں کی منصوبہ بندی ۔خوشامد کے گرد گھوم کر عناد ۔بغض اور بدلے کی آگ کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔قوم اور ریاست کے راستے جدا ہوتے گیے۔اور اس کھیل میں ۔۔۔ حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کا عنصر نمایان رہا۔ نگران حکومت جس کا اولین فریضہ فوری الیکشن ہونا چاہیے تھا۔سارے جہاں کی درد ہمارے جگر میں ہے کے مصداق ۔۔۔۔ قوم کا درد سینے میں لیے اصلاحات کے ایجنڈے پر سر گرم سفر ہے ۔اس اقدام کا اثر ملکی معیشت پر مثبت ہونے کے باوجود سیاسی طور پر قوم اور ریاست کے درمیاں دوری اور نفرت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اس ملک میں ہر ادارے کا ۔۔۔۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ان حالات میں نئے آرمی چیف جن کی مذہبی پس منظر اور سعادت گھرانے سے تعلق کی بنا وہ امیدوں کا مرکز ہیں ۔انہوں نے اپرشن کے نام پر سمگلروں۔بجلی چوروں۔ذخیرہ اندوزوں ۔منی لنڈروں کے خلاف سخت ایکشن کا آغاز کیا ہے دیکھتے ہیں ۔۔۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی احتساب کے نام پہ بہت سے بڑے نام دھر لیے جاتے رہے ہیں اور قومی مفاد میں پھر شراب کی بوتل سے شہد اور زم زم بھی ہماری گنہگار آنکھوں نے بارہا دیکھے ہیں۔اگر چے آرمی چیف کے یہ اقدامات لایق تحسین ہیں لیکن ۔۔۔ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں ۔ اس اپرشن کے دائرے کو مزید پھلاانے اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کی بہتری کے ساتھ ادارے کے خلاف ناراضگی ۔نفرت کی فضا میں کمی آسکے۔اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کو ان سرکاری ذمہ داروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرنا چاہیے کہ وہ کیوں۔ نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہے اور پاکستان جلتا رہا۔ اب اگر سمگلنگ کے راستے ۔ کرپٹ عناصر اور بجلی چور ۔۔۔۔ برساتی منڈک ۔۔۔ کی طرح روز ٹی وی کی زینت بنائے جارہے ہیں ۔ کیا یہ سب خرابی جنرل عاصم دور کی سوغات ہیں یقینا ایسا نہیں ہے ۔ہماری ایجنسیاں اور دیگر قومی ادارے کیوں غفلت کی نیند سوتے رہے۔ جنرل صاحب کی ان سب کے خلاف کاروائی بھی وقت کی ضرورت ہے۔۔ آرمی چیف کو ایک سخت فیصلہ بلیک منی کے ذخائر کے خلاف بھی کرنا چاہیے ۔مافیاز نے گھروں میں بھی ۔آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ۔ پر عمل پیرا ہوکے بہت کچھ چھپا رکھے ہیں انہیں بے ثمر کرنے کے لیے ۔۔۔ پانچ ہزار اور ہوسکے تو ہزار کے نوٹ بھی دو تیں مہینے کے نوٹس پر بدلنے کا فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ ۔حرام مال کی خوشببو عوام بھی سونگھ سکیں۔ اس کے علاوہ ملک میں ہیجانی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی اور بشمول عمران خان سب کو آزادی ملنی چاہیے تاکہ گلشن کا کاروبار چل سکے ۔اگر چہ عوامی حکومتوں نےہی پاکستان کو افغانستان سے بھی پیچھے لاکر ۔قوم کی ناک کاٹوا ہی دی ہے۔اور نہ ان سے اب بہتری کی قوم کو توقع ہے۔جنرل صاحب اگر مہنگائی ۔تیل ۔بجلی اور عوام دوست پالیسی بنانے میں کامیاب رہے تو قوم کو جمہوری اسٹج کے پتلی تماشوں سے کوئی سروکار نہیں ہوگی اور یہ قوم حسب سابق کورس میں پکار اٹھے گی ۔یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے۔ ۔