داد بیداد…میری پیا ری تاریخ!…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
بابا جی کی خد مت میں حا ضری پر ضرور کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے آج ان کے ہاتھ میں پرانی کتاب کا نیا نسخہ تھا اور پاس ہی لفا فہ رکھا ہوا تھا ایسا لگتا تھا کہ خط لفافے میں ڈال کر مرزا غالب کی طرح کسی ”کلیان“کا انتظار کر رہا ہے جو اسے ڈاک خا نہ لے جا ئے اور ٹکٹ لگا کر منزل مقصود کی طرف روانہ کر دے، میں نے سلام دعا کے بعد تجسس بھری نظروں سے خط کی طرف دیکھا تو بابا جی نے کتاب میرے سامنے رکھ دی یہ ایم بی خالد کی کتاب تھی ”ایوان صدر میں سولہ سال“ میرے تجسس میں اضا فہ ہوا میں نے پو چھا با با جی کس کو خط لکھا ہے؟ با با جی نے کہا میں نے تاریخ کے نا م خط لکھا ہے، میں نے پوچھا خط کا مضمون کیا ہے؟ بابا جی بو لے مضمون میں نے اس کتاب سے لیا ہے میرے تجسس میں مزید اضافہ ہوا میں نے پوچھا خط کے مضمون کا کتاب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ بابا جی بولے انجان نہ بنو، کیا تم نے نہیں سنا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟ میں نے کہا ضرور سنا ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ ضرور دہراتی ہے، با با جی بولے میں نے کتاب کھو لی اس میں 1952سے 1968تک قومی تاریخ کے 16سالوں کی کہانی ہے کتاب پڑھ کر میں خوف زدہ ہوا، ڈر کے مارے میں نے تاریخ کے نام ایک خط لکھا خط میں لکھا ہے کہ میری پیاری تاریخ! پلیز اپنے آپ کو نہ دہرائیے گا، پلیز اپنے آپ کو بھی معاف کیجئے، ہم غریبوں، مسکینوں اور درویشوں کو بھی معاف کیجئے پلیز اپنے آپ کو نہ دہرائیے میں نے ہمت کر کے ایک اور سوال پوچھ لیا، سوال یہ تھا کہ آپ کو ڈر کیو ں لگتا ہے، آپ خوف زدہ کیوں ہو گئے؟ بابا جی نے سرد آہ بھر کر کہا 1952ء میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سمگلنگ کا خاتمہ کیا جا ئے گا اس اعلان پر زبردست تا لیاں بجا ئی گئیں مشرقی پا کستان کے اندر ہندو اور مغربی پاکستان کے اندر مسلمان سمگلنگ کر تے تھے لو گوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں مگر سمگلنگ ختم نہیں ہوئی 6سال بعد 1958میں انقلاب آیا انقلاب کا جو بھی نام ہو اخبارات نے انقلاب لکھا ریڈیو نے انقلا ب کہا لو گوں نے انقلاب مان لیا کتاب میں لکھا ہے کہ انقلابی حکومت نے انقلا بی اقدامات کئے اعلان ہوا کہ سمگلنگ کا قلع قمع کیا جائے گا، حوالہ اور ہنڈی کا سارا دھندہ ختم کیا جائے گا منی لانڈرنگ کے خلاف کریک ڈاون ہوگا، بجلی چوروں کو الٹا لٹکایا جائے گا آٹا چوروں کو عبرت ناک سزادی جائیگی چینی چوروں، کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائے گا کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے گا مذہبی منا فرت، نسلی تعصب اور لسانی نفرت انگیز ی کو برداشت نہیں کیا جائے گا میں نے ڈر تے ڈرتے بابا جی سے پوچھا پھر کیا ہوا؟ بابا جی بولے آج کا اخبار پڑ ھو یہ تما م برائیاں آج بھی مو جود ہیں شاعر نے فلمی گیت میں ایک بڑی بات کہی تھی ”لے آئی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے“انقلاب کے ایک سال بعد علا مہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال نے قدرت اللہ شہا ب کے نام اپنے خط میں لکھا کہ اخبارات کے مدیروں کو حکومت نے خبر دار کیا ہے کہ سرکاری پا لیسی کے خلاف ایک لفظ مت لکھو، انقلاب کے دو سال بعد ملک کے بڑے شاعر نے انقلا بی لیڈر کو خط لکھا کہ میں نے 61جگہوں پر انقلا ب کے حق میں نظمیں سنائیں مجھے 3000ایکڑ زرعی آبی زمین الاٹ کی جا ئے، ایک مذہبی اور روحانی شخصیت نے درخواست دی کہ میں نے انقلا ب کی کامیابی کے لے دعا مانگی ہے مجھے صرف 10پر مٹ ملے ہیں ان پر گذارا نہیں ہوتا 1600ایکڑ زرعی زمین الاٹ کی جائے، ایک بڑے ملک میں متعین سفیر نے انقلا بی لیڈر کو خط لکھ کر درخواست کی کہ آپ کی ذات گرامی ہمارے لئے رحمت ہے خود کو ملک کا باد شاہ بنا کر بڑے بیٹے کو ولی عہد نا مزد فرمائیں، ایک سرکاری افیسر نے خط لکھا کہ آپ نے بھارت کے ساتھ سندھ طاس جو معاہدہ کیا وہ قوم کے مفاد میں نہیں دوسروں کو انعامات دیئے گئے مذکورہ افیسر کے بارے میں انقلا بی لیڈر نے لکھا”اس کا دماغ درست کیا جائے“میری پیاری تاریخ!خود کو نہ دہرائیے مجھے ڈر لگتا ہے۔