جماعت اسلامی اور موروثی سیاست۔…تحریر ؛ شجاعت علی بہادر
جماعت اسلامی کو پاکستان کی سیاست میں اس لیئے منفرد مقام حاصل ہے کہ جماعت اسلامی میں موروثی سیاست نہیں بلکہ جمہوری سیاست ہے۔ جماعت کے امیر اور دیگر ذمہ داروں کا انتخاب خفیہ حق رائے دہی سے ہوتا ہے۔ امارت کا حقدار ایسے شخص کو ٹھہرایا جاتا ہے جو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جماعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے پر آمادہ ہو۔ اس معاملے اس کے اصول بڑے سخت اور بے لچک ہیں۔ خود کو امارت کے لیے پیش کرنے اور اس کی خواہش رکھنے کو مذموم سمجھا جاتا ہے۔
مگر جب ہم عملی اور انتخابی سیاست کی بات کرتے ہیں تو جماعت اسلامی دوسری جماعتوں کی طرح موروثی سیاست کے شکنجے میں جکڑی ہوئی نظر آتی ہے۔
چترال کے تناظر سے جماعت اسلامی کے اندر اگر جمہوری اور موروثی سیاست کو دیکھا جائے تو جماعت کے انتظامی امور کو چلانے میں بظاہر جمہوریت ضرور نظر آتی ہے۔ لیکن عملی و انتخابی سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی میں دوسری جماعتوں کی نسبت موروثی سیاست زیادہ نظر آتی ہے
اندازہ لگائیں کہ:
گزشتہ تین دہائیوں سے چترال میں جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست چند خاندانوں کے گرد چکر لگاتی ہے ۔ جن میں سرفہرست سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی کا خاندان ہے۔
1993کے عام انتخابات میں مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب کے چچا مرحوم مولانا عبدالرحیم چترال سے قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ قبل ازیں وہ 1985, 1988 اور 1990 میں بھی جماعت اسلامی چترال کی طرف سے امیدوار رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے این اے کی سیٹ کے لیے مولانا عبدالاکبر چترالی کا انتخاب ہوتا آیا ہے۔ جماعت اسلامی این اے ون کی ٹکٹ کے لئے مولانا عبدالاکبر چترالی کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ موروثی سیاست میں این اے ون کی ٹکٹ مولانا صاحب کے حصے میں آئی ہے۔ مولانا خود اگر چاہیں تو اپنا سیاسی جانشین کوئی دوسرا مقرر کر سکتے ہیں بصورت دیگر وہ تا حیات این اے ون سے چترال سے جماعت اسلامی کے امیدوار معلوم ہوتے ہیں۔ جماعت کے باقی اراکین ووٹ ڈالنے، مہمات سر کرنے اور زیادہ سے زیادہ تنظیمی ذمہ داریوں تک محدود ہیں۔ ایک دستوری، جمہوری اور موروثیت کے خلاف جماعت کے لیے المیہ سے کم نہیں۔
جماعت اسلامی میں مولانا چترالی کے خاندان کے علاؤہ اگر دیکھا جائے تو مورثی سیاست کی نیلم پری پچھلے دو دہائیوں سے حاجی مغفرت شاہ صاحب کے آگے پیچھے گرد گردش کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ حاجی صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ چترال کی سیاست کے نبض شناس اور زیرک شخص ہیں انھیں چترال کی سیاست میں گٹھ جوڑ کا بادشاہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا ۔
حاجی مغفرت شاہ کا سن 2000 سے جماعت کی سیاست میں کردار فعال رہا ہے دو مرتبہ ضلع ناظم جبکہ آنے والے عام انتخابات میں پی کے ٹو کے لئے نامزد امیدوار بھی ہیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر یہ کہنا بلکل بے جا نہ ہوگا کہ جماعت میں موروثی سیاست باقی جماعتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ کیونکہ دوسری جماعتوں میں دہائیوں تک انتخابی سیاست میں کسی کی اجارہ داری نہیں رہتی۔ اس وجہ سے جماعت اسلامی کے متعلق “جمہوری جماعت” ہونے کا تصور مجھے مشکوک نظر آتا ہے۔
ملکی سیاست میں انتظامی سرگرمیوں کو چلانے کے لئے جماعت کے سربراہ کا چناؤ جمہوری عمل سے ضرور ہوتا ہے مگر انتخابی عمل میں دوسری جماعتوں کی طرح بار بار وہی آزمودہ چہرے نظر آتے ہیں جو کہ جمہوریت کے بالکل برعکس موروثی سیاست کو پروان چڑھانے والا معاملہ ہے۔
جمہوری سیاست میں کسی بھی امیدوار کو سیاسی سفر میں ایک یا دو بار انتخابی دنگل میں اتار دیا جاتا ہے جہاں ایک ہی فرد کو بار بار انتخابی دنگل میں اتار دیا جائے تو وہ جمہوری نہیں بلکہ مورثی اور خاندانی سیاست کے زمرے میں شمار ہوگا۔