دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔چند مشکل سوالات ۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات
بحیثیت فرد ، بحیثیت ذمہ دار اور پھر بحیثیت قوم ہمیں چند سوالوں کا سامنا ہوتا یے تو ہم شکستہ، افسردہ ، پژمردہ اور رنجیدہ سا ہوجاتے ہیں سوال سیدھے سادھے ہیں زندگی سے متعلق ہیں لیکن ہمارے لیے مشکل ہیں ۔سوال اگر باپ سے کیا جاۓ کہ آپ کے بچے کیا کرتے ہیں تو اس کے سینے میں ایک ہوک سا اٹھتا ہے ۔فرزند ارجمند نظروں کے سامنے پھر رہا ہوتا ہے صبح دس بجے ہیں سویا ہوا ہے گیارہ بجے ہیں ابھی ناشتہ کررہا ہے سکول کالج یونیورسٹی کا سنہرا دور ضائع کیا ہوا ہے ڈگری ہے تعلیمی اخراجات کی رسید مگر بےروزگار ہے ڈھنگ کا لباس بھی نہیں پہنتا ایک ہاتھ میں سمارٹ فون ہے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے لمبے لمبے بالوں سے کھیل رہا ہے ۔باپ سوال کا جواب نہیں دے سکتا افسردہ، رنجیدہ اور شکستہ ہے باپ کو بیٹے کی بے روزگاری کا اتنا غم نہیں جتنا اس کی چلت پھرت ، نشست و برخواست ، لباس اور کردار کا ہے اس کا جواب خلق میں اٹک جاتا ہے بڑا مشکل سوال ہے ۔۔بیٹے سے سوال کیا جاتا ہے تمہارے ابو کیا کام کرتے ہیں یہ سوال بیٹے کے لیے بڑا مشکل ہے اسکا جواب دیتے ہوۓ وہ لرزہ براندام ہوتا ہے ۔اگر ٹیچر کہے تو سوال کرنے والے کے چہرے پر زہر بھری ہنسی پھیل جاۓ گی ایسا استاد جو قوم کے بچوں کو کچھ نہیں پڑھاتا ۔اپنی کلاس ضاٸع کرتا ہے بہانے بہانے پہ چھٹیاں مناتا ہے ڈیوٹی کو ثانوی سی چیز سمجھتا ہے غافل ہے کاہل ہے ۔بچے ان سے مطمٸن نہیں ۔وہ سوال کا کیا جواب دے ۔اگر اس کا باپ پولیس مین ہے ڈاکٹر ہے سیاست دان ہے ٹھیکدار ہے اس کو اطمنان نہیں وہ کیا جواب دے ۔اس کے پاس فخر کی کیفیت نہیں اس کے پاس معیار والا جواب نہیں اس کے پاس کہنے کوکچھ نہیں سوال مشکل ہے ۔کہیں جاکے کوٸی قوم کا پوچھے ملک کا پوچھے دوستی دشمنی کا پوچھے رشتے ناطے کا پوچھے تعلق کا پوچھے اس قوم کے پاس کوٸی جواب نہیں ۔اس کے اوپر قرض ہیں اس کو اپنے حکمرانوں پہ اعتبار نہیں اس کو پتہ ہے کہ اس کا ملک دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اس کو اندازہ ہے کہ اس کے پاس سے زن سے کوٸی قیمتی گاڑی نکل رہی ہوتی ہے اس گاڑی کے اندر بیٹھا ہوا کوٸ ذمہ دار فرد بھڑیا ہے چیر پھاڑ دے گا اس کی قیمتی گاڑی میں ایندھن اس کی اپنی نہیں قوم کی ہے وہ سرکاری گھر سے نکل کے آیا ہے ناشتے میں انڈا پراٹھا کھایا ہے اس قیمتی گھر میں بجلی مفت ہے فرنیچر مفت ہے ٹیلی فون مفت ہے علاج معالجہ مفت ہے اس کے بچے اسی سرکاری گاڑی میں معیاری سکولوں میں بھاری فیس بھر کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اب یہ بندہ اپنی ایسی قوم پہ کیا فخر کرے اور سوال کا جواب کیو نکر سوجھے کہ وہ پاکستانی قوم سے تعلق رکھتا ہے ۔ ایسی قوم جس کے ذمہ داروں اور بڑوں پر اعتبار نہیں کیا جاتا اگر اس سے ملک کی تعمیر کے بارے میں سوال کیا جاۓ تو کیسے جواب دے کہ واقع اس ملک کی تعمیر ہو رہی ہے یہاں پہ جو عمارتیں بن رہی ہیں ان کو امانت سمجھ کر مستقبل کا سوچ کر بناٸی جا رہی ہیں ان کی بنیادیں مضبوط کی جارہی ہیں یہاں کی سڑکیں جو بن رہی ہیں ان کی عمریں سینکڑوں سال ہیں لیکن جواب دینے والے کو پتہ ہے کہ سب جھوٹ ہے سڑکوں کی عمریں بمشکل دو سال ہیں پھر یہ کہکشان بن جاتی ہیں ٹیکسیوں کے جھولنے سے مسافروں کی پسیلیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔عمارتیں ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں اب تعمیر کا کیا جواب دیاجاۓ سوال بہت مشکل ہے ۔۔یہ سوالات ان قوموں کے لیے اسان ہیں جن کے ہاں جذبہ تعمیر ہے جو صادق امین ہیں جو ذمہ دار ہیں جو اپنا فرض نبھانا جانتی ہیں جو ڈیوٹی کو امانت سمجھتی ہیں جنہیں استاد پہ فخر ہے جنہیں محافظ پہ فخر ہے جنہیں یقین ہے کہ ان کا ڈاکٹر ان کی جانوں کا محافظ معالج اور مسیحا ہے ۔۔ان کا ڈرایٸور ایماندار ہے ان کا مزدور کام چور نہیں ۔ان کا آفیسر سچا کھرا ہے اس کے لیے سارے ایسے سوالات آسان ہیں۔۔۔لیکن ہمارے لیے ایسے سوالوں کے جوابات مشکل ہیں ۔۔