سیاسی تیزاب گردی.. تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک
جنرل ایوب خان ۔۔۔۔ کو ناکام اورنا اہل سیاست دانوں نے پاکستان کی حکمرانی ۔۔۔ پلیٹ میں سجا کر دے دی تھی جب ایوب خان کے پیٹ میں اقتدار کو طول دینے کے درد میں اضافہ ہوا اور۔۔۔ جمہوری پرندوں کی انہیں ضرورت ہوئی تو ۔۔۔۔ جمہوری پرندے۔۔۔ اس آمر کے لگائےگئے سایہ دار درخت میں بسیرا کرنے کو اڑان بھرنے لگے اور مختلف گروپ میں تقسیم ہوکے ۔۔۔ بی ڈی کےتالاب ۔۔۔ میں سیراب ہوتے گئے ۔انہی سیاسی مداریوں کےطفیل ۔۔۔ فاطمہ جناح ۔۔۔ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ تاریخ جمہوریت کا ایک دل خراش باب ہے۔۔۔۔ جب مذاکراتی میز پر ایوب خان نے جنگ ہار دی تو۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔ کے وزیر خارجہ بیٹےذلفقارعلی بھٹو آمر کے۔۔ بوتل۔۔۔۔ سے ۔۔۔جمہوری جن۔۔۔ بن کے برآمد ہوے۔ اورلوگوں کو۔۔۔۔ شعلہ بیانی سے ۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔ بناے رکھا پی پی کی بنیاد رکھی۔۔۔ ایوب خان کے ساتھ سیاست دان جو موج میلہ میں ساتھ رہے تھے وہ انکھ مارتے ہوے بھٹو کی کشتی میں سوار ہوتے گئے۔۔یہاں تک کہ ان کاستارہ چمکنے لگا وہ اقتدار کے ساتھ ۔۔۔سول مارشل لاء کے باخدا بھی رہے۔ملک کو ایک مقبول پارٹی کی آکثریت ملنے کے باوجود اقتدار سے دور رکھ کر ۔۔۔ ادھر ہم ادھر تم ۔ قومی مفاد میں کر کے ملک کو دولخت کرنے کا کارنامہ بھی جمہوریت کے چمپین ادا کیا ۔اس سانحہ عظیم کے بعد ۔بھٹو نے کفارے کے طور ۔۔۔۔ او آئی سی۔ قیدیوں کی واپسی۔قادیانی فتنے سے نجات ۔ایٹمی طاقت کی بنیاد اور ۔۔۔ امت مسلمہ ۔۔۔ کو خودی کا درس دے کر مسلمانوں کاہیرو بنے لیکن ۔۔۔ عالمی مجرم ۔۔۔ بن گئے ۔اسے راستے سے ہٹانے کے لیے ۔۔۔۔ جنرل ضیاء سے زیادہ ۔۔۔ سیاست دانوں اور جمہوری رقیبوں اور حاسدیں نے وہ کردار ادا کیا جو۔۔۔ فاطمہ جناح ۔۔۔ کے واقعے سے بھی دلخراش ہے ۔بھٹو کو ۔۔۔۔ برادارن یوسف بن کے پھانسی چھڑہانے کے بعد یہ جمہوری گد ۔۔۔ جنرل ضیاء کے آشیانے میں انڈے دینے لگے۔85ء میں ایک ڈیڈی کا کاروباری بیٹا ۔۔۔ امیدوں کا مرکز و محور بناکے ۔۔۔ خلیفہ کا جانشین کےسامنے لایا گیا۔اس کے بعد پاکستان کی سیاست ۔مفادات اور دولت کے ترازو میں تول کے ہونے لگا۔تمام اداروں میں بھرتیاں میرٹ کو ڈسٹ بین میں ڈال کر ۔پارٹی ورکر۔کمیشن ۔سفارش کے زور پر کرانے کا رواج مضبوط ہوتا گیا اور اقتدار کی رسہ کشی میں جمہوریت کا منہ پی پی اور نون کے ہاتھوں کئی بار کالا ہوا اورملک کی بر بادی کی ذمہ داری سیاست دانوں نے جنرل اور جنرلز سیاست دانوں پر ڈالتے رہے۔اگر باریک بینی اور حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ملک اور اداروں کی تباہی کے آصل ذمہ دار فوج نہیں سیاست دان ہیں۔اگر فوج کے چند جنرل نے مداخلت اور کرپشن کی ہے تو وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ لیکن سیاست دانوں نے عوام کو خوش کرنے کے لیے ۔ریلوے۔اسٹیل میل۔پی آئی اے۔ اور دیگر بیسوں محکموں میں ضرورت اور آمدن سے زیادہ لوگ لگواکر اداروں کو دیوالیہ کیے رکھا پورے گلف کے ائر لاینز میں اتنے ملازم نہیں جتنے ہمارے پی آئی اے میں ہیں۔ ۔جنرلز جب بھی آے تو اداروں کو بہتر کرنے اور ڈاون سایزنگ کی کوششی کیں لیکن جمہوری دور میں کارکناں کی اضافی یلغار کے ہاتھوں یہ ادارے نشان عبرت بن کے حیران کن معاشی خسارے کاسبب بن کے ملک کو افغانستان سے بھی پستی میں لا کھڑا کیے ہوئے ہیں ۔ سیاست دان ملک کی بربادی کا ذمہ دار عدلیہ اور فوج پہ ڈالتے ہیں ۔حالانکہ ہائی کورٹ سپریم کورٹ اور آرمی چیف تک لوگوں کو منتخب یہی سیاست دان ذاتی پسند ۔پارٹی مفاد تعلق کی بنیاد پر کرتے ہیں اور ان بڑے عہدوں سے بھی وہ توقعات وابستہ رکھتے ہیں جو اپنے لگائے گئے وفادار ں سے رکھتے ہیں تمام سرکاری اداروں میں تحصیل سے لیکر مرکز تک عہدوں میں ذاتی اور پارٹی مفاد پر ترقیاں دے کر اپنی ریاست اور عوام کی مفاد کو بالاےطاق رکھ کر ۔۔۔ خون نچٶڑنے والے گد اور جوں بٹھاے جاتے ہیں ۔سیاسی ورکروں کو یوسی لیول سے مرکز تک۔۔۔۔ شاہی خزانے سے نواز کر ملک کو ترقیاتی سفر کے نام پر کنگال کیاجاتا ہے۔۔بجلی ۔گیس۔۔تجارت ۔منصوبے روڈ ۔ڈیم ۔وغیرہ میں کمیشن لے کر ملک دشمن معاہدے کیے جاتےہیں آئی پی پیز کے معاہدے نواز اور پی پی کے بے نظیر تحفے ہیں ۔سیاست دان ملک اور عوام کے ہی نہیں ۔۔۔ خود جمہوریت کے بھی قاتل ہیں ۔ نہ ان کی پارٹیوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز موجودہے بس۔۔۔ بت پرستی۔۔۔ ہے مختلف خاندانوں کی جو پچاس سال سے جاری ہے اور کچھ اس سے بھی بہت ہی پرانے۔۔۔ پاپی۔۔۔ ہیں ۔ یہ بھیڑکی طرح ایک ایک ہوکر ایک دوسرے کو ذہح ہونے کے لیے پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور ذاتی مفاد اور ہوس اقتدار کے لیے ۔۔۔ نو ستارے ۔پیٹریارٹ ۔ہم خیال ۔استحکام ۔پی ڈی ایم ٹی ڈی ایم بنانے میں دیر نہیں لگاتے نون اور پی پی دور کے کارنامے سیاست گروں کی وہ ۔۔۔تیزاب گردی۔۔۔ ہے جس نے پورے ملک کو جلا کے رکھ کر دیا ہے۔ آں جمہوری تیزاب گردوں کے کارناموں کو ایک شعر میں سمجھنے کے لیے احمد ندیم قاسیمی مرحوم کا یہ شعر ہی کافی ہے۔
غارت گری اے اہل ستم بھی کوئی دیکھیے ۔گلشن میں کوئی پھول ۔نہ غنچہ نہ کلی ہے۔
جنرل مشرف کی گود میں بھی سب سے پہلے پاکستان بنانے کے آرادے سے یہی سیاست دان جمہوریت کو لات مار کر بہٹھ گئے ۔۔۔۔ اوران میں ۔۔۔۔ پستول بدل بھائی امیر مقام کا۔شیخ رشید۔پرویز الہی کے نام بہت سوں کے ساتھ ۔۔۔ لوح دماغ۔۔۔ محفوظ ہیں ۔۔پی پی اور نونی اتحاد نے جمہوریت کو بچانے کے لیے ۔۔۔ بے نظیر۔میثاق ۔۔۔ کی اور پاور میں آکے پہلے کی نسبت باہمی رواداری سے ملک کو کنگال کرکے جمہوریت کو بچائے رکھا۔ایک اور سانچے میں عمرانی بت بھی تراشا جارہا تھا اب کشتی کی بجائے۔۔۔ جہاز۔۔۔ بھر بھر کے جمہوریت پسندوں کو نئے پاکستان میں اتاراگیا اور ایک فریق ۔۔۔ مجھے کیوں نکلا کارونا روتے ہوئے علاج کے بہانے اس محل میں ڈھیرے جمائےجس پر ناآاہل ہوئے تھے۔ عمران نے ہوائی تیر بہت چلائے مگر سیاسی مزاج اور اخلاقی تربیت کے کمی کی وجہ سے بیویوں تک کو دشمن بنائے رکھا۔بھٹو بن کر امریکہ کو بھی للکارا اور سب طاقتوروں کے ۔۔۔۔ غیچھو شآئی۔۔۔ بن کے پھر اپنے ہی اتحادی اور پارٹی سیاست دانوں کے ہاتھوں ۔۔۔دڑان تختہ۔۔۔ ہوئے ۔سولہ مہنے میں تجربہ کاروں نے قوم کی ۔۔۔شلواریں ۔۔۔بھی اتار دیں اپنے لیے کیا کیا قوانین نہیں بنائے۔کیا کیا سلامیاں اور معافیاں نہیں کیں ۔نہیں کیا تو جمہوریت۔عدلیہ اور اداروں کی بہتری اور پابند کرنے کے قوانین نہیں بنائے اگر چند دن اور رہتے تو اداروں ۔ممبری اور دیگر فایدے والے جگوں کے لیے تعلیم کی شرط کوختم کر دیتے تاکہ راجہ ریاض ٹایپ دانشور کا الو سیدھا ہی رہے ۔اب نواز کو دوبارہ لانے کے لیے سیاست دان پھر ٹولیوں میں سجائےجارہے ہیں تاکہ ایک سیٹی مارنے پر اتحاد تشکیل دی جاسکے ۔لگتا ہے آیندہ بھی استحکام ملنا اور معیشت کو سہارہ دنیا خواب ہی رہے گا ۔جب تک تمام سیاسی پارٹیوں کو بشمول عمران خان برابر مواقع نہیں ملتا استحکام ممکن نہیں ۔آرمی چیف اور چیف جسٹس کے پیچھے قوم کو کھڑا ہونا ہوگا ۔اور ان دو طاقتورں کو ڈنڈے کے زور پر تمام سیاسی جماعتوں کو ۔۔۔۔ میثاق جمہوریت ۔۔۔ کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ آداروں کو پابند بنانا ہوگا کہ ایک دوسرے کی حدود میں ٹانگ اڑائی نہ کریں ورنہ وقتی اقدامات سے یا زور زبردستی سے ملکی حالات کنڑول کرنا خاصکر ان دونوں جب عالمی ہوائیں ۔ بھارتی اور افغانی۔ ۔ نیاز مندیاں زوروں پہ ہوں ۔۔۔ ممکن نہیں ۔