جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کراچی اور چترالی بابا۔۔۔تحریر ؛ شجاعت علی بہادر
گزشتہ روز فسبک پرایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ اب تک سوال بن کر میرے زہن میں منڈلا رہی ہے ۔ ویڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جامعہ ربانیہ نامی ایک دینی درسگاہ میں طلبہ اور اساتذہ کرام بڑے احترام سے ایک بزرگ کو رخصت کر رہے ہوتے ہیں ۔پوسٹ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ بزرگ شخص کا تعلق اپر چترال لون سے تھا۔ وہ آج سے 45 برس قبل شادی کے محض ڈیڑھ سال بعد اپنی بیوی اور بیٹے کو چھوڑ کر تلاش معاش میں شہر کا رخ کیا تھا۔ اس کے بعد اُس کی واپسی نہیں ہوئی ۔ گھر والے، ان کی بیوی اور بیٹا انتظار کرتے رہے مگر چترالی بابا کا پتہ نہیں چلا۔ ان کے والدین ، بہیں بھائی فوت ہوگئے ۔ ان کی بیوی آنسو بہا بہا کر ضعیف ہو گئی ، یوں اُن کے خاندان کو یقین ہوا کہ باباکا انتقال ہوا ہوگا۔
گزشتہ دنوں جب بابا کی طبعیت بگڑ گئی۔ تب جامعہ ربانیہ کے انتظامیہ کو خیال آیا کہ بابا اب بوڑھا ہو گیا ہے کوئی کام ان سے نہیں لیا جاتا لہذا ان کے ورثاء کو تلاش کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے بابا کے ورثاء تک پہنچ گئے ۔
جامعہ ربانیہ منتظمین کے مطابق باباجی گزشتہ 25 سالوں سے جامعہ میں رہ رہے تھے جبکہ 20 سال مختلف شہروں میں مزدوری کرتے رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ 25 سالوں تک جامعہ کے انتظامیہ نے کیوں بابا کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا؟ کیوں بابا سے نہیں پوچھا بابا آپ کہاں سے ہیں؟ گھر کب جانا ہے، آپ کا کوئی بہن بھائی وغیرہ ہیں بھی کہ نہیں ؟ اب کیوں ان کے ورثاء کا خیال آیا ؟؟؟ کیا جامعہ کی جانب سے بابا کو ماہوار معاوضہ ملتا تھا ؟؟؟ 25 سالوں میں بابا کے بینک اکاؤنٹ میں کتنی رقم ہے ؟؟؟؟؟ اب اس عمر میں باباجی کا دیکھ بال کون کرے گا ؟؟؟ باباجی کی صحت اگر خدانخستہ بگڑ گئی تو ہسپتال وغیرہ کون لے کر جائے گا؟؟ ادویات کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟؟؟ ان سارے سوالات کے جوابات منتظمین جامعہ سے پوچھنا چاہئیے۔
میری ناقص رائے کےمطابق انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے کا فرض ہے کہ اس مسئلے کو قومی سطح پر اٹھائے۔ باباجی کو تاحیات معاوضہ دینے کے لئے جامعہ ربانیہ کو پابند کیا جائے ۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ممبر محترمہ سینیٹر فلک ناز چترالی صاحبہ سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف ایوان بالا میں آواز اٹھائے۔ نا جانے بابا سلطان جیسے کتنے گمنام بابا اسی طرح بیگار کر رہے ہونگے ؟؟
بابا جی کو رخصت کرتے ہوئے اشکبار ہونے والے اگر اتنا احساس رکھتے کہ 45 سالوں سے ان کے گھر والے بھی ان کے لئے آنسو بہا رہے تھے اور ان کی زمہ داری تھی کہ بابا جی کو ان کے گھر بھیج دیتے تو ہی انسانیت کا بول بالا ہوتا۔