بخل کی نحوست۔۔۔۔ تحریر: اقبال حیات اف برغذی

درد  دل  کے  واسطے  پیدا  کیا  انسان  کو

ورنہ اطاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیان

مقصد حیات کے اس تصور کے تناظر میں اگر دین اسلام کے وضع کردہ نظام حیات کا جائزہ لیا جائے تو بنی نوع انسان کی باہمی محبت اور غمخواری کی طرف رغبت کا عنصر غالب نظر آتاہے۔ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے اور باہمی رواداری کے عمل کو ہمارے مذہب میں اتنی پذیرائی  ملتی ہے کہ اگر اسے رضائے الہی کا بنیادی ذریعہ قرار دیا جائے تو بےجانہ نہ ہوگا۔ کیونکہ اس کائنات میں بسنے والے انسانوں کو اللہ رب العزت کے خاندان کی حیثیت حاصل ہے اور خاندان کے افراد کی باہمی محبت کو پروان چڑھانا یقیناً قابل ستائش عمل ہے۔ اس بنیاد پر ہمارے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہو م ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والے تم پر رحم کریں گے۔اس مقصد کے حصول میں جہاں بہت سے عوامل کا رفرما ہوتے ہیں وہاں خیرات وصدقات کے عمل کو اگر قابل ذکر قرار دیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ اور اللہ رب العزت اس انسانی وصف کو اپنی ذات سے منسوب کرکے ایک انسان  کی طرف سے اپنے نام قرض سے تعبیر کرتے ہیں۔اللہ رب العزت انسانوں کی کفالت کی قدرت رکھتے ہیں مگر مالی لحاظ سے اونچ نیچ کے رنگ کو انسانی زندگی کےلئے ایک امتحان کی حیثیت دی گئی ہے اور اس کیفیت کے ذریعے صبر اور جذبہ غمخواری کو آزمایا جاتا ہے اور ان دونوں عوامل کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اگر مشکل قرار دیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔یوں ان اوصاف کی اہمیت قابل ذکر ہوجاتی ہے۔ خیرات وصدقات کے عمل میں اخلاص اور فی سبیل اللہ کے عنصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور نمود ونمائش اس عمل کو ضائع کرنے کاسبب بنتا ہے۔صدقہ دائین ہاتھ سے دیکر بائین ہاتھ کو پتہ نہ ہونے کے رنگ کا حامل ہوناچاہیے۔قرآن صدقے کو جتلانے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ بصورت دیگر صدقہ باطل ہوجاتا ہے۔ صدقہ وخیرات کے مصرف کےلئے کسی خاص امور کی نشان دہی نہیں ملتی۔ اس کادئرہ انسانی مجبوری میں داد رسی سے لے کر احیا اور ترویج دین کے معاملے میں معاونت تک پھیلا ہوتا ہے۔ ہاتھ پھیلاکر بھیک مانگنے کی صورت میں معاونت سے بہتر صدقہ وہ ہے جو انسان خود حالات کا ادراک کرتے ہوئے کسی کے کام آئے۔بخل صدقہ وخیرات کی راہ میں مانع کیفیت کانام ہے۔ بخل کی وجہ سے رزق میں تنگی اور صدقے سے اضافہ ہوتا ہے۔ بخل اللہ رب العزت کو انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر کرتی ہوئی فرماتی ہے کہ ایک خاتون کسی کام کے سلسلے میں میرے گھر آگئی ۔گھر میں داخل ہوتے وقت اس کا دایان بازو سینے پر تھا۔ اور کافی دیر بیٹھنے کے بعد جب جانے کے لئے اٹھی تو بازو کی کیفیت میں فرق نہ آیا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد روتی ہوئی کہنے لگی کہ میرے والد انتہائی سخی اور وسیع القلب انسان تھے اور اپنے منہ کا نوالہ بھی دوسروں کو دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ۔اور میری والدہ انتہائی کنجوس اور بخیل تھی ۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے صرف ایک دفعہ ایک خاتون کی زبردست فریاد پر اپنے پرانے چھیتڑے کپڑوں اور ہاتھ میں موجود چھوٹی سی چربی کے ٹکڑے کو اس کی طرف پھینکتی ہوئی دیکھی تھی ۔دونوں کے وفات کے بعد کچھ عرصےپہلے خواب میں محشر کا منظر دیکھا ۔تمام انسان دھوپ کی تپش سے بدحال تھے۔میری والدہ ان پرانے کپڑوں سے اپنی شرمگاہ کو چھپاتی ہوئی چربی کے ٹکڑے کو چوس رہی تھی۔ اور چیختی ہوئی پانی کے قطرے کا تقاضا کررہی تھی۔اور قریب ہی تالاب کے کنارے کھڑے ہوکر میرے والد صاحب لوگوں کو گلاس بھر بھرکر پانی دے رہا تھا۔اپنی اہلیہ کی طرف توجہ نہ دینےپر میں نے غصے سے ایک گلاس اٹھاکر پانی بھر کر اپنی والدہ کو دیدی ۔ اور وہ پی گئی ۔اسی وقت ایک زوردار ندا آئی۔کہ اس عورت کو جس نے پانی دیا ہے۔ اس کا ہاتھ شل ہوجائے ۔اس خطرناک آواز سے میری نیند اڑگئی اور بیدار ہوئی تو میرا یہ بازوسینے سے پیوست ہوکر بےکارہوا تھا۔اس واقعے کے تناظر میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی کے شب وروز گزارنا چاہیے۔کہ انسان نے جو کھایا اور ہضم کیا جو پہنا اور پرانا کیا اور جو صدقہ وخیرات کےذریعے اپنی اگلی دنیا کو سنوارا وہ اس ملکیت ہے اور باقی سب اورں کے ہیں۔ ========================

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔