اگر مگر کی صورتحال…تحریر:شجاعت علی بہادر
آئندہ عام انتخابات میں چترال لوئر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر اگر مگر کی صورتحال کے ساتھ دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔
پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح آئے روز چترال کی سیاسی درجہ میں بھی بدرجہ ہا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تحصیل چیئرمین دروش شہزادہ خالد پرویز نے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ آئندہ انتخابات میں بھرپور تیاری کیساتھ میدان میں اترنے کے لئے مشاورتی اور شمولیتی اجلاس کر رہے ہیں۔ خالد پرویز نے پرویز خٹک کی نئی نویلی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین میں شمولیت اختیار کی ہے اور آج چترال خاص میں پارٹی لیڈران کی موجودگی میں جلسہ منعقد کرکے عوامی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
موجودہ ملکی سیاست میں اگر پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن سیاست بھی شطرنج کی طرح کا کھیل ہے۔ صحیح منصوبہ بندی کیساتھ کھیلنے کی صورت میں ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک آئندہ عام انتخابات میں شہزادہ پرویز کا کاٹنا دار مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار کیساتھ متوقع ہے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی شہزادہ خالد پرویز کانٹے دار مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہرا کر تحصیل چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ لیکن عام انتخابات میں ششہزادہ پرویز کی جیت کا انحصار پی ٹی آئی کے امیدوار پر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پی کے ٹو کے لئے محمد شریف خان اور مہتر چترال کے نام سر فہرست ہیں۔
اگر پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے مہتر چترال کو میدان میں اتار دیا جائے تو اس کا پورا پورا فائدہ پی پی پی یا جماعت اسلامی کو ہوگا۔ اس صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ کانٹے دار مقابلے کے بعد پی پی پی کا سلیم خان یا جماعت اسلامی کے سابق ضلع ناظم مغفرت شاہ میدان مار سکتے ہیں۔ اس صورت میں شہزادہ پرویز کی اصل پوزیشن تیسری ہوگی۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کے لئے سلیم خان کی بجائے چترال ٹاؤن میں کسی اور کو میدان میں اتار دیں تو اس صورت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے محمد شریف خان آسانی سے میدان مار سکتا ہے۔
لٹکوہ سے محمد شریف اور سلیم خان مد مقابل ہونے کیصورت میں اس کا پورا پورا فائدہ شہزادہ خالد پرویز کو ہوگا مگر کیسے؟؟؟؟
شہزادہ خالد پرویز تحصیل دروش سے فی الحال تک پی کے ٹو کے لئے اکیلا امیدوار ہے۔ علاقائی کارڈ بھر پور انداز میں استعمال کر سکتا ہے جبکہ شہزادہ پرویز کے لئے یو سی کوہ اور چترال ٹاؤن میں ایوبینز کو اکھٹے کرنے کے لئے حاجی مغفرت شاہ صاحب کا نامزد امیدوار جماعت اسلامی کا ہونا ہی کافی ہے۔
شہزادہ خالد پرویز تحصیل دروش سے تقریباً 60 فیصد ووٹ لے سکے گا۔ ٹاؤن چترال میں ووٹ تقسیم ہونگے ٹاؤن چترال میں جماعت اسلامی اکثریت لے جائے گی۔ کوہ میں جماعت علمائے اسلام جبکہ لٹکوہ میں 90 فیصد ووٹ پی ٹی آئی اور پی پی پی میں تقسیم ہونگے۔ اس صورت میں کانٹادار مقابلے بعد تحصیل دروش اور دیگر علاقوں کے ووٹوں سے شہزادہ خالد پرویز کانٹادار مقابلے کے بعد میدان مار سکتا ہے۔
اگر ایم ایم اے بن گئی تو اس صورت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا مقابلہ ایم ایم اے کیساتھ ہوگا اور ایم ایم اے کانٹا دار مقابلے کے بعد میدان مار سکتی ہے۔ مگر !!!!! حاجی مغفرت شاہ اس دفعہ خود الیکشن لڑ رہے اس صورت میں ایم ایم اے نہیں بن سکتی۔
پاکستان تحریکِ انصاف ، پی پی پی کی ٹکٹ لٹکوہ ، جماعت اسلامی کی ٹاؤن اور جماعت علمائے اسلام کے کوہ یا ٹاؤن میں دینے کی صورت میں شہزادہ پرویز میدان مار سکتا ہے بصورت دیگر ان کی اصل پوزیشن تیسری ہوگی ۔
اگر جماعت علمائے اسلام تحصیل دروش میں کسی کو ٹکٹ دینے کی صورت میں مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین کانٹادار مقابلے کے بعد پی ٹی آئی جیت سکتی ہے۔
یاد رہے کہ سیاسی تجزیہ کار کے الفاظ حرف آخر نہیں ہوتے تاہم تجزیہ کرتے وقت ماضی اور حال کا تقابلی جائزہ لے ہم مستقبل کی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ باقی آنے والا کل کیا لے کر آرہا ہے، اس کا علم اللہ عزوجل کو ہی ہے۔