بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔تحریر احمد سعید قاضی
آجکل پریس کانفرنسوں اور شمولیتی پروگراموں کا چرچا ہے۔حال ہی میں دروش میں سابقہ پی پی پی وزیر جو “عوامی خدمت” کے جذبے کے تحت اپنے ” ضمیر” کی آواز پر لبیک کی قلندرانہ نعرہ لگا کر پی ٹی آئ میں شامل ہوۓ اور پانج سال جماعت اسلامی کی مذہبی چھتری لۓ کے پی میں وزارت اعلیٰ کے منصب عالیہ پر فائز بھی رہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ 2014 کے دھرنوں میں جذبہء حب الوطنی کے تحت کنٹینر پر اپنے لیڈر کی خوشنودی کے لئے ناچتے نظر آۓ جبکہ کنٹینر کے نیچے قوم کی بچیاں دی جے کے سحر انگیز دھن پر قومی نوجوانوں کے خون کو گرماتی رہتی ہوتی تھیں جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی اقتدار کے مسند اعلیٰ تک پہنچائ گئ اور موصوف صوبے سے مرکزی ایوانوں میں پہنچے اور وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔ اور اپنے لیڈر کے ہر فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے۔ عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ باقی سارا پاکستان چور ہے اور اگر کوئ نجات دہندہ اور مسیحا ہے تو اس کا ” لیڈر” بلکہ عالم اسلام کا لیڈر ہی ہے۔ 9 مئ کی منصوبہ بندی اور 9 مئی کی بغاوت تک اپنے قائد کے ساتھ رہے۔ جب بغاوت نا کام ہوئ، اداروں میں بیٹھے سہولت کار چلے گۓ اور ہواؤں نے رخ بدلنا شروع کیا تو خیال آیا کہ ان کا لیڈر وطن دشمن بھی ہے چور بھی۔ نا اہل بھی ہے اور معیشت کی تباہی کا زمہ دار بھی۔ صادق و امین بھی نہیں اور محب وطن بھی نہیں۔ اس لۓ “ضمیر” نے پھر پکارا اور اپنا بوریا بستر لے کر کونے میں ڈیڑھ اینٹ کا نیا کمرہ بنا کر نۓ نام “پارلیمنٹرین” کے لاحقے کے تحت ملک و قوم کی ” خدمت”
کے سچے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑے ہیں ۔ ہو سکتا ہے خود نا کودے ہوں کسی نے دھکا دیا ہو۔ بہر حال اب لوٹوں کے شمولیتی پروگراموں میں شریک ہو کر اپنی پرانی باتوں کو نیا جامہ پہنا کر عوام کو ماموں بنانے کی سعی میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب “پرانے لوٹوں کے سپوت” اپنے اجداد کی سیاسی سنتوں کی پیروی میں علاقے کی ترقی اور ” غریب عوام” کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کی خاطر اجداد کی تین دھائیوں کی بے لوث خدمات کا اپنے درباریوں اور جدی پشتی مداحوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر تزکرہ کرتے ہوۓ پرانی شاخ سے اڑان بھرنے اور نئ شاخ پر نیا آشیانہ بنانے کی “رسمی مشاورت” سے لوگوں کو ماموں بنا رہے ہیں۔
ضمیر کے ان سوداگروں سے کوئ پوچھے کہ آپ میں اہلیت ہے تو جامہ بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔نئ جماعت کے نۓ رہنما یہ تو بتا دے کہ پچھلے دور میں بی آر ٹی کا کیا حشر ہوا تھا۔ مالم جبہ سکینڈل کس کے دور میں رونما ہوا۔ خیبر بینک سکینڈل کس کس کا کارنامہ تھا۔ پچھلے دور میں چترال کو سی پیک سے مربوط کرنے کا خیال کیوں نہ آیا۔ کے پی دیوالیہ کس کے اقتدار میں ہوا۔
ضمیر کیا ہوتا ہے۔ ان لوٹوں کا ضمیر تو ذاتی اقتدار اور ذاتی مفاد کے گرد گھومتا ہے۔ کل مفاد پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں نظر آیا تو ان کی گود میں آ بیٹھے آج پارلیمنٹرین میں نظر آنے لگا تو پھر چھلانگ۔ بڑوں نے سیاسی قوت 1985 میں چترال کی پسماندگی کو عوام کے سامنے رکھ کر حاصل کی۔ ووٹ پی پی پی کا کرسی ان کی اور اسمبلی میں پہلی تقریر اسی پارٹی کے خلاف جس کے ووٹ سے اسمبلی پہنچے تھے ہوا کا رخ بدلا تو “ق” لیگ۔ پھر ہوا بدلی تو ن لیگ۔ وہاں بدلی تو مشرف لیگ۔ وہاں سے پی پی پی اب پی ٹی آئی پارلیمنٹرین ۔ نعرہ وہی چترال کی پسماندگی اور غریب عوام۔1985 سے ایک ہی گھر میں اقتدار ۔نہ چترال کی حالت بدلی نہ غریب عوام کی۔ قسمت بدلی تو ان کی جو ہمیشہ عوام کے کاندھوں پر سوار ہو کر آۓ۔مشورہ ہوتا بھی ہے تو ورکرز سے نہیں پرانے درباریوں سے۔