دادبیداد۔۔۔ہوش اور جوش۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
وطن عزیز کی سیا ست، معیشت اور حکومت آج جس دوراہے پر کھڑی ہے یہ وہی دوراہا لگتا ہے جو 1971میں ہمارے سامنے آیا تھا سب نے جو ش سے کا م لیا کسی نے بھی ہو ش اورخردسے کام نہیں لیا اُس وقت عالم اسلام میں اہم شخصیات زندہ اور فعال تھیں لیکن کسی بھی شخصیت نے پاکستان کی مدد نہیں کی جوش والوں کو ہوش کی طرف مائل کرنے میں کردار ادا نہیں کیا یہاں تک کہ 16دسمبر کا دن آگیا 15دسمبر کی شام کو بھی سرکاری ذرائع ابلاغ سے جھوٹی کہانیاں چلائیں اور اُس کے صدر نے قوم سے خطاب کر کے صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا ان باتوں کی طرف اشارہ کافی ہے ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ذرائع ابلاغ کا سارا ریکارڈ یوٹیوب نامی جادوگر کے پاس محفوظ ہے جسے دیکھ کر دل افسردہ ہوجاتا ہے الیکشن کمیشن نے 8فروری 2024کو عام انتخابات کا اعلان کیا ہے چند دنوں میں انتخابی عمل کا پورا شیڈول آجا ئیگا سیاسی جماعتیں ٹکٹ جاری کرینگی انتخا بی مہم کا آغا ز ہو گا اس مہم سے پہلے سیا سی جما عتوں اور سیا سی لیڈروں کی باہمی رقابت پکی دشمنی میں بدل چکی ہے سیا سی قائدین کا تمام تر مقصد ایک دوسرے سے بدلہ لینا ٹھہر چکا ہے انتخابی مہم کا ممکنہ نقشہ حوصلہ افزا نہیں اور انتخابی نتائج سے قومی اتحاد اور ملکی استحکام کی کوئی امید نظر نہیں آتی اس وقت تین طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ آنے والے انتخابات کو صاف، شفاف،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے انجام تک پہنچانے کی راہ ہموار ہو سکے، زمینی حقائق اور حا لات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ ذرائع ابلاغ اور سفارتی ذرائع کو استعمال کر تے ہوئے چین اور امریکہ کی اعلیٰ قیادت کو ثالثی کا کر دار دیدیاجا ئے پا کستان کی بقا اور سالمیت دونوں عالمی طاقتوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور پاکستانی قیادت کو دونوں مما لک اپنی ثا لثی پرراضی کر سکتی ہیں اگر کسی وجہ سے یا کئی وجو ہات کی بناء پر یہ بات ممکن نہ ہو تو روس اور تر کی کو اس بات پرا ما دہ کیا جائے کہ وہ پا کستان کو مو جودہ خود ساختہ بحران سے نکا لنے کے لئے آگے آئیں اور اندرونی خلفشار کو خانہ جنگی تک پہنچنے سے روکنے کے لئے اپنا کر دار ادا کریں تیسرا قدم سعوی عرب قطر اور متحدہ عرب امارات کے حکمران پا کستان میں اپنے دوستوں کے ذریعے تلخیوں کو کم کرنے اور انتخابات سے پہلے خو شگوار فضا پیدا کرنے کے لئے لائحہ عمل بنانے میں ہماری قیادت کی مدد کریں تینوں گروہوں کی ثالثی کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور تینوں گروہ الگ الگ ثا لثی کریں یا مل کرثالثی کریں دونوں صورتوں میں پاکستان خانہ جنگی والی صورت حال سے باہر نکلسکتا ہے اگر کسی کا خیال ہے کہ حالات ٹھیک ہیں پا کستان کو کچھ نہیں ہونے والا تو یہ ”شتر مرغ“ کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا جو کسی بھی صورت مناسب یا قابل قبول نہیں ہوسکتا، اس بات سے کوئی محب وطن پا کستانی انکار نہیں کر سکتا کہ اس وقت 1971والی مکتی باہنی پوری قوت اور تیاری کے ساتھ قومی اداروں پر حملوں کے لئے تیار کھڑی ہے شیخ مجیب الرحمن کو جس طرح کو نے میں دھکیل دیا گیا تھا با لکل اُسی انداز میں ایک سیا سی جماعت کو نظر انداز کرنے کی پا لیسی پر پورے خلوص کے ساتھ عمل ہوتا ہوانظر آرہا ہے جس طرح 1971ء میں بھٹو کوحکومت نے لا ڈ لا بنایا تھا اسی طرح آج بھی کسی ایک کو برملا گود لینے کے آثار نظر آرہے ہیں جب کوئی ثالث درمیان میں آئیگا وہ سیا سی اور عسکری قیادت کو ایک میز پر لا کر مذاکرات کے ذریعے تلخیوں کو ختم کرائے گا، انتخابی مہم کے لئے سب کو یکساں مواقع دینے کی ضمانت حا صل کرے گا اور سیا سی قیدیوں کو رہا کر کے سب کو برا بری کی بنیادپر جمہوری عمل میں شریک کرے گا یہی آج پا کستان کی بقا اور سالمیت کا ضا من ہے