۔ * *صدمہ عظیم ۔۔** (9). *تحریر۔ مبشرالملک*
** *حلیمہ کی شہادت*
حضرت حلیمہ سعدیہ ۔۔۔۔ نے جار سال کے ۔۔۔ انمول ہیرے۔۔۔ کو ان کی ماں کے حوالے کر تے ہوئے یہ کہنے لگی۔ ۔یہ بچہ ہمارے گھرانے کے لیے خیرو برکت کا بہتریں ذریعہ رہا ہے ۔اور میں نے وہ ساری باتیں جو ان کی پیدایش سے قبل اور دوراں آپ کے ساتھ پیش آئیں تھیں اپنی جانب منسوب کرکے اور خود کو ان کی حقیقی ماں بنا کے لوگوں خصوصا اہل یہود کے سامنے پیش کرتی رہی ۔نہ جانے کیوں وہ اس بچے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے جب بھی اسے دیکھتے تو وہ مجھے اسے قتل کرنے کا مشورہ دیتے کہ یہ بڑا ہوکر تمہادے قبیلے کے قتل کا سبب بنے گا۔ ایک مرتبہ عکاظہ کےبازار میں ۔۔۔ یہودیوں ۔۔۔ نے اسے ٹٹول کے دیکھا اور آپس میں کہنے لگے اسے فورا قتل کرنا چاہیے ورنہ یہ ہماری بربادی کا سبب بنے گا۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے ۔کیا یہ بچہ۔۔۔ یتیم ۔۔۔ ہے میں نے اپنے شوہر کی جانب اشارہ کیا یہ ان کے والد ہیں یہودی ۔۔۔۔ عالم ۔۔۔ غصے سے چیخنے لگا ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے اسے تو ہمارے ۔۔۔ علم ۔۔۔ کے مطابق یتیم ہونا چاہیے۔ حضرت حلیمہ بی بی آمنہ سے کہنے لگی اب ۔۔۔۔ اس کے سینے کے چیر جانے کے واقعیےنے مجھے بہت ڈرا دیا ہے لہذا میں ۔۔۔ بنو ہاشیم۔۔ کی امانت کو لوٹانے آئی ہوں ۔
**امتحان* ۔
بڑے لوگوں کی ازمایش بھی بڑی ہوا کرتی ہے ننھے ۔۔۔ محمد ۔۔۔ ابھی ماں کی محبت کا لطف اٹھانا شروع ہی کر چکے تھے کہ تقدیر نے اسے صدمہ عظیم سے دوچار کیا جسے بیاں کرتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔ابھی مکہ میں آپ دو سال ہی ماں اور دیگر رشتہ داروں کے درمیاں ہنسی خوشی گزار پائے تھے کہ ماں کو خیال ایا کہ بیٹے کو لیکر مدینہ میں باپ کی لحد پر حاضری کے لیے جایا جائے۔
* *مدینہ*
مکہ کے سردار عبدالمطالب ۔۔۔ کا ننھیال تھا۔ اس سفر کی خواہش کا اظہار جب سردار مکہ سے کیا گیا تو وہ خود اپنی نگرانی میں بی بی آمنہ ۔نواسے محمد ؑ ۔ لیکر مدینہ 500 کلو میٹر دور روانہ ہوئے اور کئی دنوں کی مشکل سفر کے بعد مدینہ پہنچے۔ جہاں ان کے آبائی رشتے دار رہتے تھے۔ ایک مہینے تک یہاں قیام کیا مگر یہاں بھی دو مرتبہ سرے راہ یہودی علماء نے ننھے۔۔۔ محمد ۔۔۔کے خدوحال اور حلیہ مبارک دیکھ کر اس کے پیچھے پڑ گیے جب بی بی امنہ کو معلوم ہوا تو سردار مکہ کی قیادت میں واپس مکہ روانہ ہوئے۔
حضور انور ؑ خود فرماتے ہیں ایک دن ایک یہودی عالم نے مجھے دیکھا نام پوچھا میرا حلیہ مبارک دیکھا اور لوگوں کو بتاتا رہا ۔یہ اس قوم کا پیغمبر بن کر ہجرت کر کے اس شہر میں آئے گا۔ ،،
ام ایمن جو حضرت عبداللہ کی باندی تھیں اور اس سفر میں شریک تھیں بتاتی ہیں ۔یہودیوں کی مسلسل حضور کی نگرانی کے خوف سے ہم لوگ مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔
**جدائی* ۔
قسمت آبوا کے مقام پر بی بی آمنہ بیمار پڑ گئیں اور طبیعت بگڑ تی گئی۔حضور ان کے سرہانے غمگین و پرشان بیٹھے تھے کہ بی بی آمنہ بہوش ہوگئی۔ ننھے محمد روتے رہے ۔بی بی ہوش میں آئیں ۔۔نور نظر پر نگاہ کی اور کہا ُُُُ بیٹا ہر چیز کو فنا ہونا ہے ۔ہر چیز پرانی ہوجاتی ہے ۔مجھے یقین کامل ہے میں بے شک فوت ہوجاوں لیکن میرا نام تا ابد زندہ رہے گا اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے ایک پاکیزہ فطرت ہستی کو جنم دیا ہے جو میرے لیے نیک بختی کی علامت کے طور پر پہچانا جائے گا۔،،
بی بی آمنہ یہ کہتی ہوئی وفات پاگئیں ۔ ننھے محمد ماں سے لپث کر روتے رہے۔ ام ایمن نے اس موقع پر آپ کو دلاسہ دیا ۔ آپ ﷺ پر اس اچانک صدمے کا زبردست اثر ہوا۔ ماں کو دفن کرنے کے بعدآپ ﷺ انسو بہاتے ہوئے واپس مکہ پہنچے۔
بحوالہ۔محمد رسول اللہ۔تجلیات نبوت۔ الرحیق المختوم ۔شواھد النبوت