یہ ہے میرا چترال ..تحریر:حذیفہ خلیق کاکاخیل
پاکستان کے بڑے شہروں سمیت شاید دنیا بھر یہ کاروباری رواج ہے کہ دکاندار یا سیل مین گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ زبانی کی سلاست ، جھوٹ کی آمیزش اور نے نئے فوائد کے تذکرے کے ساتھ کوشش ہوتی ہے
کہ گاہک ہاتھ سے نہ نکلے بلکہ متعلقہ سامان خرید کر ہی واپس ہوجائے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاہک انجانے میں کسی دکان میں داخل ہوتے ہیں اور بادل ناخواستہ کوئی سامان اٹھائے واپس نکلتے ہیں۔
اور زمانے کی نظر میں ایسے ہی کاروباری لوگ کامیاب تصور کیئے جاتے ہیں۔ مجھے اس کا کراچی سمیت پاکستان کے دیگر کاروباری شہروں میں تجربہ رہا، اور وہ لمحات مجھے کھٹن لگے ہیں جب میں کسی بیوپاری کے ہتھے چڑھا ہوں اور جی چھڑانے میں ہمیشہ ناکام رہا ہوں۔
مجھے آج اپنے شہر کے ایک کاروباری شخصیت پر بےحد حیرانگی ہوئی اور تادم تحریر سوچوں میں گم ہوں کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ کہ معاشی تنگدستی اور مندی کی اس عہد میں بھی کوئی قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرسکتا ہے۔ کوئی گھنٹہ قبل میری ایک الیکٹرک اپلائنسز شاپ پر حاضری ہوئی۔ اس سے پہلے کوئی مہینہ قبل میں نے اسی دکان سے اپنی جاپانی ساختہ ہیٹر کیلئے اکلیٹرک سپرنگ راڈ خریدا تھا۔ اور تاحال زیر استعمال ہے۔ میرے پاس موجود ہیٹر میں دو راڈ کی گنجائش ہے لیکن میں نے ایک پر ہی اکتفا کیا تھا۔
گزشتہ دونوں سے بڑھتی خنکی نے یہ عندیہ دیا کہ ایک راڈ کی تپش میرے مقابل کی نہیں سو ہیٹر میں اضافی راڈ کا خزانہ بھی پر کیجئے۔ اس عندیہ نما مشورہ کی تعمیل کیلئے میں نے مذکورہ دوکان کا رخ کیا۔ صاحب دکان کے ساتھ علیک سیلک کے بعد میں نے اپنے مطلوبہ راڈ کا ذکر کیا تو صاحب دکان نے راڈ مجھے تھما دیا میں نے راڈ دیکھتے ہی بتا دیا کہ ایک مہینہ پہلے بھی یہاں سے اسی طرح کا راڈ خریدا تھا۔ دوکان دار نے پوچھا بیٹا آپ کونسا ہیٹر استعمال کررہے ہیں اور کیا کمرے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو دکاندار نے انتہائی شرافت سے کہا دیکھیں بیٹا یہ راڈ 1000 واٹ کا ہے۔ آپ کے ہیٹر میں اس سے پہلے بھی ایک راڈ لگا ہے یعنی 2000 واٹ کا ہیٹر ہے۔ آپ دیکھیں مہنگائی کتنی بڑھی ہے اب 2 لاکھ کمانے والا بھی اخراجات پورا نہیں کر پارہا دیکھیں آپ کا بجلی بہت زیادہ خرچہ آئیگا۔ اور دوسری بات انہوں نے بہت ہی رازداری اور خیرخواہی سے بتایا کہ ہمارے ہاں گھروں میں میٹر ریڈنگ کے بغیر بل بیجھے جاتے ہیں سو ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ بجلی کا خرچہ کتنا آرہا، آخر میں یکبارگی وہ زیادہ بل آپ ریسیو کرینگے تو آپ کو سخت پریشانی ہوگی۔ میں نے فوراً سوال کیا آپ مجھے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ میں یہ آپ سے نہ خریدوں ۔ انہوں نے جھٹ سے کہا جی بلکل میرا مشورہ یہ ہے۔ ایک ہی راڈ سے آپ کا کام چل رہا ہے تو دوسرا نہ لگائیں ہوسکے تو مشورہ یہی مزید کوئی کم واٹ کا ہیٹر خریدیں۔ اور بجلی کا خرچہ مزید کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس متوقع مشورہ کے ساتھ ہی مجھے وہ تمام دکانداروں اور سیل مینز کی میٹھی اور تگڑی باتیں یاد آنے لگیں جو مجھے خریداری پر کنونس کرچکے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی خریداری پر مجبور ہوا ہوں۔
انتہائی بہترین انداز تخاطب کے ساتھی صاحب دکان نے مجھے الوداع کیا۔ میں واپس اپنی بائیک کی طرف پلٹا اور آخری بار میں نے دکان کو دیکھا اور صاحب دکان کو دیکھا، میں حیرت کی سمندر میں مزید ڈوبتا جارہا تھا۔ میں نے چھپکے سے دکان کے تصویر نکالی دیکھا تو تصویر میں صاحب دکان بھی آچکے ہیں۔
مسجد کے کمرے میں بیٹھے ظہر کی نماز کا انتظار کررہاہوں اور یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور دل سے دعائیں نکل رہی ہیں۔ فرحت و شادمانی سے مملو ہوں کہ انسانیت و شرافت اس جہاں میں کم ضرور ہے لیکن ابھی مٹی نہیں ، روئے زمین اس مبارک ہستیوں سے اب بھی آباد ہے جو دنیا کے ہر پیشہ سے انسانیت کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے وابستہ ہیں ان کا مطمحِ نظر دنیا نہیں بلکہ دنیا والوں کی خیرخواہی ہے۔ انہی لوگوں کی بدولت میں اب سینہ تان کے کہہ رہا ہوں یہ ہے ہماری ثقافت اور یہ ہے میرا چترال!