داد بیداد…دبستان کھوار کے گمنام سپاہی…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ڈاکٹر سید عبداللہ نے یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں اپنے اعزاز میں ہونے والی الوداعی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا ادبی سفر بہت سادہ سا ہے ہم ماضی کا تاج سر پر رکھتے ہوئے حال کو گودمیں لیکر مستقبل کی طرف قدم بڑھارہے ہیں دبستان کھوار کا بھی ایسا ہی حال ہے کہانی 1750سے شروع ہوتی ہے جب اتالیق محمد شکور غریب نے پہلی بار اپنی کلیات میں کھوار غزلیات اور نظموں کو جگہ دی مگر عربی رسم الخط میں کھوار کی مخصوص آوازوں کو مخصوص حروف کے بغیر لکھا تھا اس کا ازالہ 1921میں علامہ محمد غفران اور شہزادہ ناصر الملک نے 6نئے حروف متعارف کراتے ہوئے کیا اور پہلا کھوار قاعدہ 1921میں شائع کروایا 1957میں پبلک لائبریری چترال میں انجمن ترقی کھوار کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے سر خیلوں میں شہزادہ حسام الملک کے ساتھ وزیر تجارت میرغیاث الدین اور سابق حاکم آغاسعدی خان چغتائی بھی شامل تھے جن کے نام بہت کم لئے جاتے ہیں 1965اور 1967کے دو سال دبستان کھوار کی تاریخ میں ریڈیو پاکستان کے پروگرام کھوار مجلس اور وزارت اطلاعات کے مجلہ جمہور اسلام کی وجہ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ریڈیو پاکستان نے پشاور کے کالجوں میں پڑھنے والے طالب علموں کوجز وقتی (پارٹ ٹائم)نوکری کا موقع دیا ایک تقریب میں اُس وقت کے پروگرام پروڈیوسر حمید اصغرنے حاضرین کو بتایا کہ کھوار پروگرام سے چیک لینے کے لئے چترالی نوجوان آپس میں لڑتے تھے ایک دن دو نوجوان نے مارشل لاء کے مانیٹرنگ یونٹ میں شکایت درج کراکر مخالف فریق کو جسمانی سزاء دلوائی تھی دوسری طرف پشاور سے دور بیٹھے ہوئے کھوار کے عاشق سامعین تھے جو اپنے جیب سے پیسہ خرچ کرکے ڈاک کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد میں خطوط بھیج کر پروگرام کے کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے ایسے لوگوں میں پھنڈر ضلع غذر کے پیدائش خان گلا غمولی غذر کے جاوید حیات کاکا خیل بروک لاسپور حاضر جان محتشم پھکور اشکومن کے سید مراد علی شاہ عاجز کابل سے شہزادہ عزیز الرحمن چمورکھون سے بابا ایوب کوشٹ سے عبدالوالی خاموش،دروش سے امیر شریف خان، حسام الملک،فداالرحمن فدا، اور امین الرحمن چغتائی، موڑ گرام بونی سے احمدالدین اور اترائی گرم چشمہ سے مفتاح الدین فاتح، ڈام چپاڑی سے رحمت اکبر خان رحمت، گوشین کشم سے شیر نواز نسیم، کوراغ سے محمد بلال،شغور سے،رحمت الدین سب سے زیادہ خطوط لکھتے تھے پھنڈر کے پیدائش خان نے ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ ڈاک خانے سے 25لفافوں کا بنڈل یک مشت خرید کر روزانہ ایک خط ڈال دیتے تھے جو ایسی تربیت سے ریڈیو پاکستان پشاور پہنچتے اور ایسی ترتیب سے ناشر کرتے تھے یہ لوگ اپنی مادری زبان کے عاشق تھے اُ ن کا کوئی مالی مفاد اُس پروگرام سے وابستہ نہیں تھا بلکہ وہ صرف اُ ن کا شوق اور جذبہ تھا ریڈیو پاکستان کے لسنرز ریسر چ یونٹ کے سربراہ فضل مولیٰ نے ایک تقریب میں ذکر کیا کہ کھوار مجلس کو ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام بنانے میں سامعین کی طرف سے آنے والے خطوط کا بڑا کردار ہے یہ سب لوگ دبستان کھوار کے گمنام سپاہی کا درجہ رکھتے ہیں اُن میں سے کچھ لوگ کھوار کے ادیب اور شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے تاہم بیشتر اُن میں سے گمنام ہی رہے آج دبستان کھوار میں اُنہی کی دم سے بہار ہے علامہ اقبال نے کیا بات کہی
سفینہ برگ گل بنالے گا قافلہ مور نا تو اُن کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

زر الذهاب إلى الأعلى