فکروخیال…فرہاد خان ۔…نیلسن منڈیلا ۔۔ عظیم انقلابی رہنما ۔

جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والےنیلسن منڈیلا نامی اس عظیم رہنما نے اپنی طویل جہدوجہد کی بدولت ملک سے نسل پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنا بہترین کردار ادا کیا اور دنیا کے لئے ایک رول ماڈل بنا۔ اس عظیم لیڈر نے اس تمام جہدوجہد میں نے27سال جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، دکھ، اذیت، تکالیف اور جلاوطنی کا دکھ بھی سہا لیکن، ہمت کبھی نہیں ہاری اور نسلی امتیاز کے خاتمے میں بلاآخر کامیاب ہوہی گئے۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد انھیں جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر منتخب کرلیا گیا۔اس عظیم رہنما کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی امن کا سب سے بڑا انعام نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ نیلسن منڈیلا ایک عظیم مفکر و عالمی سیاست میں ایک عظیم رہنما کے طور پر اب بھی لوگون کے دلون میں زندہ ہے اور تا ابد زندہ رہیں گے کیونکہ اس کے کام اور اس کے اقوال اقوام عالم کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں جو ہر انے والے انسانوں کے لئے رہنمائی کا زریعہ ہیں۔ 95 برس کی عمر میں دنیا سے کوچ کرنے والا یہ عظیم رہنما اپنے اعمال اور اپنے اقوال کی وجہ سے ان چند ہستیوں میں شامل ہیں کہ جن کی باتون اور جن کے اقوال رہتی دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ستائیس سال کی جیل کی صعوبتون نے اس افریقی سیاہ فارم شخص کو زندگی کا ایسا سبق سکھایا کہ وہ انے والی نسل کو ایک انسانیت،امن و اشتی ،انسان دوستی اور رہبری کے گر سکھا گئے۔ اس عظیم لیڈر کے چند اقوال پیش خدمت ہیں کہ جن میں ہمارے لئے زندگی گزارنے کے سلیقون سے لیکر انسانیت کے لئے امید کی کرن موجود ہیں۔ نیلسن منڈیلا کا کہنا ہے کہ میں بنیادی طور پر ایک پُرامید انسان ہوں،یہ خصوصیت قدرتی ہے یا پیدائشی، اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اس پُرامیدی کا ایک سرا سورج سے ملتا ہے جو صرف روشن ہونا جانتا ہے، میری زندگی میں بے شمار تاریک لمحات آئے جب مجھے میرے یقین کے ساتھ بہت سخت آزمایا گیا، لیکن میں نے خود کو مایوسی سے دوچا ر نہیں ہونے دیا ،میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ یا تو اس راستے میں موت ہے یا پھر جیت۔
نیلسن منڈیلا کے مطابق ، اپنی زندگی میں، میں نے یہ سیکھا ہے کہ بہادری اور ہمت و جرأت، خوف کی غیرموجودگی کا نا م نہیں ہے بلکہ خوف پر قابو پانے کا نام ہے ۔
مذید کہتے ہیں’’ دینا کی مشکلات کچھ لوگوں کو توڑ دیتی ہیں لیکن یہی مشکلات ہی کچھ انسانوں کو طاقتور بنادیتی ہیں کیونکہ کوئی بھی کلہاڑی اتنی تیز نہیں ہوتی جو کسی کوشش کرنے والے کی روح کو کاٹ سکے،اور امید کے ساتھ اٹھتا قدم آخری دم تک کوشش کے لیے تیار رہتا ہے‘‘ ۔
عمل پیہم اور عزم مسلسل کی اہمیت بارے کہتے ہہیں ’’کوئی بھی کام یا عمل تب تک ناممکن ہے جب تک وہ کرنہ لیا جائے اس لئے کوشش جاری رکھیں۔
خدمت ٖخلق بارے فرمایا’’جو انسان اپنے ملک اوراپنے عوام کی خدمت کو اپنا فرض سمجھ لے وہ آخرت میں بھی سکون ٖسے آرام کرسکتا ہے‘‘۔جبکہ حقیقی رہمنا کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک حقیقی قائد کو اپنی عوام کی آزادی کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘ ۔
معاشرتی اور انفرادی زندگی کے سنہری اصولون بارے کہتے ہیں۔’’ہماری معاشرتی اور انفرادی زندگی میں دوسرے کے لیے غورو فکر دنیا کو ایک خوابوں بھری دنیا بنانے کا سفر بآسانی طے کردے گا، ایک ایسی دنیا جس کا خواب ہم میں سے ہر کوئی دیکھتا ہے‘‘۔
یہ اور بہت کچھ وہ اقوال ہیں کہ جن کی بنیاد پر معاشرے کو سیدھے راہ پر ڈال کر انسانیت کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے مگر عصرحاضر پر نظر ڈوڑی جائے تو دنیا سیاسی طور پر ایسے مدبر،مفکر اور روشن خیال سوچ رکھنے والے رہنما سے خالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں انسان اور انسانیت بارے مثبت سوچ کی قلت ہو اناپرستی،انتہا پسندی، مذہب ،رنگ،نسل اور زات کی بنیاد پر فیصلے صادر ہوں تو دینا کو تباہی کے دہانے پر لے جانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کی سزا ہم سب کو بگھتنی پڑے گی کیونکہ جب تک ہم ان زاتی پسند و ناپسند، نسلی ،مذھبی و فرقہ ورانہ تعصب سے باہر نہیں ائیں گے ہم اگے نہیں بڑھ سکتے اور دنیا کو امن کا گہوارہ نہیں بنا سکتے۔

زر الذهاب إلى الأعلى