٭ *حرا سے جبل نور تک* * (17)….*تحریر۔۔۔ شہزادہ مبںشرالملک*
٭ *رسالت کے چھاؤں* :
610ءشہر مکہ ۔۔۔ کے حالات جن میں ۔۔۔ بت پرستی ۔۔۔ قتل غارت ۔۔۔ قمار بازی ۔۔۔ غلاموں اور باندیوں پر۔۔۔ ظلم وستم،۔۔۔ بیٹیوں ۔۔۔۔کو ۔۔۔زندہ درگور ۔۔کرنا، ۔۔۔خانہ کعبہ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ بتوں کی بھرمار اور پوجا،۔۔۔ ننگے طواف ۔۔۔۔ جیسے قباہتیں آپ ﷺ کے ۔۔۔ذہن مطہرہ۔۔۔ کے لیے ہمیشہ بوجھ بنی رہیں ۔
آپ ﷺ ان ۔۔۔ ناپاک خرافات اور ۔۔۔گھٹن زادہ ماحول سے چٹکارہ پانے اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اس پر غور وفکر کرنے کے لیے اکثرو بیشتر مکہ سے کچھ فاصلے پر قائم ۔۔۔جبل حرا ۔۔۔ میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں قیام فرما کر شہر مکہ کا نظارہ فرماتے اور رب کائنات سے اس بگڑی ہوئی قوم کو سُدھارنے کے حوالے مراقبہ فرماتے۔
حضرت خدیجہ ؓ آپ کے لیے کھانا پہچانے کا انتظام خود اور اپنے خادموں کے ہاتھ کراتے۔
# *جبل نور۔*
جب پہاڑی حرا کی قسمت چمکنے اور اسے ۔۔۔جبل نور۔۔۔ میں بدلنے کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ پر ۔۔۔سچے خوابوں۔۔۔ کے زریعے اصرار خداوندی کھلتے گئے۔ ایک روز آپ ﷺ حسب معمول حرا کے غار میں ان سوچوں میں گم تھے۔ کہ پہاڑی ہلتی ہوئی محسوس ہوئی اور غیب سے ایک فرشتہ ۔۔۔جبرائیل۔۔۔ ؑوحی لے کر حاضر ہوئے اور کہا… اقرا… یعنی پڑھ ۔آپ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا فرشتے نے آپ ﷺ کو تین مرتبہ سینے سے لگایا اور علوم الہی منتقل کی اور۔۔۔ سورہ اعلیٰ۔۔ کے ابتدائی آیات….اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ… آپ ﷺ کو دوھرائے اور خود غائب ہوگئے۔
اس ابتدائی وحی میں طالب علموں کے لیے خصوصی طور پر ۔۔۔۔ خوشخبری اور اعلی مقام کی نوید موجود ہے۔ عزت و عظمت اور مقام و منزلت کی اہمیت ۔۔۔ اللہ کے ساتھ جڑجانے کو قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔ اور امت محمدیہ سے ابتدائی خطاب میں ۔۔۔ علم۔۔ کے حصول کو ۔۔۔ قلم۔۔۔ کے ذریعہ ݯاصل کرنے کی تاکید ہے۔۔ ترجمہ ایات ۔۔۔
پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ۔جس نے تخلیق کی۔ انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا۔تیرا رب بڑا کریم ہے۔جس نے قلم کو زریعہ علم بنایا۔انسان کو وہ بات سیکھاءی جس سے وہ نااشنا تھا۔
# *انوکھا واقعہ* ۔
اس انہونی واقعہ پر آپ ﷺ سہم سے گئے اور پسینے میں شرابور گھر کی طرف دوڑے گھر پہنچ کر بی بی خدیجہ ؓ سے چادر لینے کا کہااور سب کچھ بتا دیا بی بی خدیجہ ؓ نے تسلی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ضایع نہیں فرمائیں گے۔ کیونکہ آپ غریبوں محتاجوں رشتہ داروں کی غم خواری اور خیرخواہی فرماتے ہیں پھر آپ ﷺ کو لیکر اپنے چچاذاد بھا ئی ۔۔۔۔ورقہ بن نوفل۔۔۔ کے پاس گئے جو تورات اور انجیل کے عالم تھے ورقہ نے آپ ﷺ کو تسلی دی اور کہا یہ وہی فرشتہ… ناموس اکبر یعنی ۔۔۔حضرت جبرایل ؑ ۔۔۔ہیں جو ۔۔۔حضرت موسیٰ ؑ ۔۔۔ اور حضرت عیسی ؑ پر وحی لے کر آتے تھے۔ آپ ﷺ کو مبارک ہو اللہ نے آپ کو نبوت سے نوازا ہے اور آپ اپنے امت کے نبی ہونگے۔قوم آپ کو جھوٹا کہے گی، تکلیف دے گی، اور یہاں سے نکال دے گی۔اب آپ کے آرام آسائش اور محبتوں کے دن ختم ہوگئے آنے والے دن بہت ہی کھٹن ہونگے لہذا آپ ﷺ کو ثابت قدم رہنا ہوگا۔ میں اگر زندہ رہا تو آ کر تصدیق کرونگا۔
یہ اکیسوین رمضان کی سحر تھی جب یہ وحی نازل ہوئی۔ورقہ سے ملاقات ۔نبوت کی مبارک باد اور تسلیی پانے کے بعد اپ اعتکاف مکمل کرنے دوبارہ حرا گئے۔۔۔ اور اعتکاف مکمل کرکے واپس شہر مکہ تشریف لائے۔
*بندش وحی*
اس ابتدائی وحی کے بعد کئی دنوں تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ اس عرصے کے دوران آپؐ سخت کرب اور رنج و ملال سے دوچار رہے۔حضور خود فرماتے ہیں مجھے ۔۔۔ شاعر ۔۔ کاھن۔۔۔ سحر ۔۔۔ سے سخت نفرت تھی میں سلسلہ وحی منقطع ہونے پر سخت ذہنی کرب میں مبتلا رہا مجھےایسا لگ رہا تھا کہ میں ذہنی طور پر متاصر ہوچکا ہوں یا مجھ پر آسیب کا اثر ہوا ہے میرادل چاہتا تھا کہ خود کو پہاڑی سے گرا دوں ۔
دوسری طرف الہی مصلحت اسی میں پوشیدہ تھی تاکہ معاملےکو سمجھنے اور وحی کی مشقت کو جھیلنے کی ۔۔۔صلاحیت و استعداد۔۔ آپ ّ میں بڑھ سکے ۔ حضور امین فرماتے ہیں ایک دن اسی ۔۔۔طلب شوق اور بے قراری کی کفیت میں گھرسے باہر نکلا اور حرا کی پہاڑی پر پہنچ گیا پرشانی اور ذہنی دباو کے عالم میں کھڑا نیچے دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔ ناگہان مجھے پکارا گیامیں نے چاروں طرف نگاہ کی کوئی بھی نظر نہ آیا میں نے نگاہ آسمان کی جانب بلند کی۔۔۔۔ تو وہی فرشتہ جو ۔۔۔ حرا۔۔۔ میں وحی لے کر آیا تھا ۔۔۔کرسی۔۔۔ پر بیٹھا آسمان کو چوتا ہوا نظر ایا ۔اس کے رعب دبدبے کو دیکھ کر مجھ پر ایک رعب طاری ہوا اور میں پہاڑی راستوں میں الجھ کر رہ گیا اچانک خدیحہ ؓ کے بیجھے ہوئے خدام میری تلاش میں پہنچے اور مجھے ساتھ لے کر روانہ ہوئے میں کانپتے ہوئے اور زمین کی طرف جھک کر گھر پہنچا اور خدیجہ سے ۔۔۔چادر۔۔۔ اوڑھوانے کی درخواست کی خدیجہ نے چادر دی ثھنڈےپانی کے چھنٹے میرے چہرے پر مارے اوراسی دوران ۔۔۔ سورہ مدثر ۔۔۔کے یہ محبت بھری ایات نازل ہوئی۔
یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۟وَرَبَّكَ فَكَبِّروَثِیَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
اے کمبل اوڑھنے والے۔۔۔ ۔اٹھ لوگوں کو بدعمالی کے نتائج سے ڈرا۔اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔اپنے کپڑے پاک رکھ۔۔اور گندگی سے الگ تھلگ رہ۔۔۔
اس وحی کے بعد پے درپے وحی کا سلسلہ جاری رہا آپ ؐ کار رسالت کی ذمہ داری اور الہیی منصب سے سرفراز ہوئے۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے دو قسم کے کام کرنے کا حکم دیا اور ان کے نتائج بھی بتا دیے۔
1۔ لوگوں کو یہ بتا دیں کہ وہ کس تباہی کی جانب چل بڑھے ہیں اور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
2 ۔ دوسروں کو ہی تبلیغ کرناہی کافی نہیں بلکہ خود کو بھی مثالی نمونہ بنالیں تاکہ اپ کی پیروی کی جاسکے۔
ان ایات سے یہ اشارے بھی ملے کہ اس ۔۔۔ دین کے نفاذ ۔۔۔ میں سنگ گراں حائل ہیں اپ کو کانٹوں سے الجھ کر ۔۔۔ گلشن ۔۔۔ کی ابیاری کرنی ہوگی کیونکہ یہ مشقت اور تکلیف کا راستہ ہے اور آپ کو اس کے لیے تیاری کے ساتھ میدان عمل میں برداشت ۔صبر ۔اور بردباری سے کام لے کر آنا ہوگا۔
نوٹ۔۔ ان تاریخی حقائق کو پڑھنے کے بعد ۔حضرت خدیجہؓ حضور انور پرایمان لانے میں سب سے اول ہیں اور ان کے چچا ذاد بھائی ورقہ دوسرے اگرچہ وہ اعلان نبوت سے پہلے ہی فوت ہوئے تھے۔ *
بحوالہ۔ تفہیم القرآن ۔بخاری شریف۔ تجلیات نبوت ۔محمد رسول اللہ۔ الرحیق المختوم*