…. فکرو خیال..بینظیر تو واقعی میں بےنظیر تھی ۔.۔ فرہادخان

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ،
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔

سچ کہیئے تو تاریخ میں جتنا ظلم بھٹو خاندان کے ساتھ ہوا ، کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی سے بینظیر کے بہیمانہ قتل تک ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے اور یہ بھٹو خاندان کو سرے سے ختم کرنے کی گھناؤنی شازش کی ایک لمبی کہانی ہے ۔

شاہنواز بھٹو کا پراسرار موت ، بانی پی۔پی۔پی کو بیرونی ایجنڈے کے تحت پھانسی پر چڑھانا ، میر مرتضی بھٹو کو جعلی پولیس مقابلے کے زریعے گھر کے قریب قتل کرنا اور پھر بینظیر بھٹو کو بھی بم دھماکے اور فائرنگ کے زریعے راستے سے ہٹانا بھٹو خاندان کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا گھناؤنا منصوبہ تھا اور منصوبہ ساز اس میں کامیاب ہو ہی گئے۔
آخر یہ سب کچھ بھٹو خاندان کے ساتھ ہی کیوں ہوا ۔ شاہنواز بھٹو کے فرزند ارجمند ذوالفقار علی بھٹو اپنے جارحانہ مزاج ،فہم و فراست اور اعلی ترین قابلیت کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت جلد معروف ہوگئے ، ایوب دور میں اس کی قابلیت کو بھانپتے ہوئے وزارت خارجہ کا قلمدان ملا ،بعد میں ذوالفقار بھٹو نے اپنی نئی پارٹی بنائی اور روٹی کپڑا و مکان کا نعرہ عوام میں اتنا مقبول ہوگیا کہ بھٹو شہرتون کی بلندیوں پر پہنچے ،وزارت عظمی و ملک کے صدر کی حیثیت سے مقام بنایا مگر اسلامی ممالک بلاک بنانے ، امریکہ کو للکارنے اور اسلامی ممالک کو جگانے کی پاداش میں سپر پاور کے آنکھون میں کھٹکنے لگے۔ ایک مقدمہ بنا وہ بھی قتل کا ، پابند سلاسل ہوئے اور پھر انجام پھانسی ۔تاریخ اسے ظلم عظیم کے نام سے یاد رکھتی ہے ۔ بھٹو کو شہید کرنے کے بعد خاندان پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے مگر اس خاندان نے ملک کی خاطر، جمہوریت کی خاطر اور عوام کی خاطر راہ حق پر ڈٹے رہے ،جہدوجہد جاری رکھا گیا اور ایک بار پھر شہید بھٹو کی رانی عوام کے دلوں میں گھر کر گئی ،والد کی طرح انتہائی قابل اور سیاست کے گر سے واقف بی بی نے ملک کا اقتدار سنھبالا مگر بھٹو کی طرح اس کی اپنی سیاسی قد و کاٹ کی بلندی اس کے دشمنوں اور ملک دشمنوں کو راس نہ آیا۔ اپنے مفادات خطرے میں دیکھ کر پہلے دور حکومت میں محض الزامات کے تحت اسے وزارت عظمی سے ہٹایا گیا۔اگلے بار بھائی میر مرتضی بھٹو کو اس کی حکومت میں ہی قتل کردیا گیا اور پھر اسے دوسری بار وزارت عظمی سے چلتا کیا گیا۔
یہ 27 دسمبر 2007 کی ایک شام تھی ۔بی۔بی بینظیر ابھی ابھی راولپنڈی کے جلسے سے خطاب کے بعد واپس جارہی تھی۔ مجھے یاد ہے جس انداز سے اور جس جنون سے اس نے چند مقتدر قوتوں کو للکارا تھا یہ ان حلقوں کو بہت ناگوار گزرا ،اتنا ناگوار کہ یا تو جان سے مار دینا تھا یا اپنا بوریا بستر اور اپنے کاروبار سمیٹ کر بھاگنا تھا سو ایک جان کے درپے ایک ہوگئے اور قتل کے سامان تیار تھے ، ٹی وی پر ٹکر چلنے لگی ، جلسے کے دروازے پر بم دھماکے کی اطلاع تھی ۔پھر دس سے پندرہ منٹ بعد دھماکے کے ساتھ فائرنگ کی خبریں آنے لگیں اور پھر بی بی کے زخمی ہونے کی خبریں اور آخر کار شہادت کی خبر آن پہنچی ۔ یوں بھٹو کے خاندان کا ایک اور فرد ملک دشمنوں کے وار کا نشانہ بن گیا ۔یون جمہور و جمہوریت کا ایک اور آمیں داغ مفارقت دے گیا ۔اور ایک بار پھر ملک و جمہوریت کے دشمن جشن منانے لگ گئے اور ملک بھر میں بینظیر کے غم میں صف ماتم بجھ گیا ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم ۔
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیئے ۔

زر الذهاب إلى الأعلى