چترال ،ووٹ اور شرعی حکم..محمد غیاث الدین..اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج چترال

چترال دو ضلعوں (ضلع اپر چترال اور ضلع لوئر چترال)پر مشتمل علاقہ ہے۔

چترال پاکستان کے انتہائی شمال مغرب کی جانب واقع ہے۔

چترال جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل علاقہ ہے، تین اطراف سے مختلف ممالک سے جا ملتا ہے۔

پامیر جسےRoof of the Worldیعنی دنیا کی چھت کہا گیا ہے اس کی انتہائی شمالی سرحد پر واقع ہے۔پامیر تین ممالک میں بٹا ہوا ہے،اس کا ایک حصہ افغانستان میں واقع ہے،ایک حصہ تاجکستان میں ہے،اوراس کا ایک حصہ پاکستان یعنی چترال میں شامل ہے۔واخان کی پٹی چترال اور سنٹرل ایشیائی ممالک کے درمیان حدِ فاصل ہے،ضلع چترال کا رابطہ اپنے اردگرد واقع مختلف علاقوں سے پہاڑی درّوں کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے۔

چترال  معدنی ذخائر اور جنگلات سے مالامال ہے۔چترال اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے سیاحتی اعتبارسے نہایت اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔چترال کے لوگ پوری دنیا میں پرامن تسلیم کیے جاتے ہیں۔

لیکن:چترال جانے کے لئے روڈ نہیں،بلکہ ایک پگڈندی ہے جو گلگت تک جاتی ہے،جو کسی زمانے میں گھوڑوں کے چلنے کے لئے بنائی گئی تھی۔اگر تجربہ کرنا ہے تو چترال شندور روڈ کا مشاہدہ ضرور کیجئے۔سوات ایک ضلع ہے اس کے لئے موٹر وے اور چترال دو ضلعوں پر مشتمل ہے،اس کے لئے بیالیس فٹ چوڑی پگڈنڈی۔

چترال  میں ہسپتال نہیں۔معاف کیجئے  یاد آیا  ایک ہسپتال ہے ،لیکن علاج نہیں ہے،کیونکہ  وہاں بیماری کی تشخیص کرنے کے آلات  نہیں،جس کی وجہ سے وہاں کے ڈاکٹر صاحبان (مجبوراً)تشخیص بھی میڈیسن سے کرتے ہیں۔

چترال کے دو ضلعوں میں صرف دوبوائز اورتین گرلز کالجز ہیں،جو انفراسٹرکچرکے ان گنت مسائل سے دوچار ہیں۔اکلوتی یونیورسٹی ہے جو کرائے کی بلڈنگ میں چل نہیں ، رینگ رہی ہے،بلڈنگ کے علاوہ فنانشیل مسائل الگ سے ہیں۔

چترال میں کیڈٹ کالج نہیں،چترال میں میڈیکل کالج نہیں،چترال میں انجینئرنگ کالج نہیں۔

چترال معدنی وسائل سے مالامال ہے لیکن اس کا فائدہ  اہلِ چترال کو نہیں۔چترال میں دریا ہے،لیکن پشاور پہنچ کر وہ دریائے کابل بن جاتا ہے۔

چترال میں بجلی پیدا ہوتی ہے لیکن لوڈشیڈنگ سے نجات کسی کو نہیں،بجلی کے نِرخ میں کوئی رعایت یہاں کے عوام کو نہیں۔

چترال اتنا اہم خطہ ہونے کے باوجود اتنا محروم  کیوں ہے؟کیوں ہے؟کیوں ہے؟

اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے:

ہم لوگ ایسے افراد کو الیکشن میں منتحب کرتے ہیں،جو انتہائی نااہل ہوتے ہیں،جو نہ بات کرنا جانتے ہیں اور نہ ہی سامنے والے کی بات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اپنی بات منوانا دور کی بات ہے۔انہیں صرف اپنی تنخواہ اور الاونسز کی فکر ہوتی ہے،وہ چترال کی ترقی کے بجائے اپنی پارٹی کو مقدم رکھتے ہیں،انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا  کہ چترال میں روڈز کی صورت حال ناگفتہ بہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی گاڑیاں تباہ وبرباد ہوگئیں،گردوغبار کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی صحت تباہ وبرباد ہوگئی، فصلیں اور میوے جات برباد ہوگئے،طلباء جو ہر روز ان روڈز میں سفر کرتے ہیں ان کا قیمتی وقت ضائع ہونے کے ساتھ ان کی صحت ومزاج میں بھی  بُراتغیر واقع ہو گیا۔۔۔۔۔بالکل انہیں فکر ہوتی ہے،بدین کے لوگوں کی انہیں فکر ہوتی ہے تھرپارکر کے لوگوں کی انہیں فکر ہوتی ہ،ےسندھ کے لوگوں کی۔۔۔۔۔۔بس انہیں ساری دنیا کی فکر ہوتی ہے،اگر نہیں ہوتی تو صرف چترال کے لوگوں کی فکر نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کو اپنے ووٹ سے منتخب کروگے تو چترال کیسے ترقی کرے گا؟اور یہاں کے عوام کا معیارِ زندگی کیسے بہتر ہوگا؟

حالانکہ شرعی اعتبارسے :

ووٹ ایک امانت ہے،یہ امانت اس کو اداکرے جو اس امانت کا حقدار ہے۔

ووٹ ایک شہادت ہے،ووٹ دینے والا یہ شہادت(گواہی)دیتا ہے کہ میری نظر میں یہ بندہ جس کو میں ووٹ دے رہاہوں یہ اسلام ،چترال  اورپاکستان کے لئے بہترین بندہ ہے۔

ووٹ ایک سفارش ہے۔ووٹ دینے والا جس کو ووٹ دیتا ہےاس کی سفارش کرتا ہے۔

یاررہے  کہ ووٹ ایسی گواہی ،ایسی امانت اورایسی شہادت  ہے جس کا تعلق صرف ووٹ دینےوالے اور ووٹ لینے والے سے نہیں ہوتا،بلکہ اس کا تعلق پورے چترال سے ہوتا ہے،اس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائےگا۔اگرمنتخب نماٸندے نے چترال کا حق ضاٸع کیا تو اس کو ووٹ دینے والوں سے ضرور پوچھا جاٸے گا۔یہ کھیل نہیں کہ جس نے جیتا ختم ہوگیا۔یہ عبادت ہے جس کا اثر ہمیشہ رہتا ہے۔ اس لئے ووٹ خوب سمجھ کر دیجئے۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

“لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین”ترجمہ:مؤمن کی شان یہ نہیں ہے وہ ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا جائے۔

زر الذهاب إلى الأعلى