دھڑکوں کی زبان”یاد اس کی عذاب جان بھی ہے “.. محمد جاوید حیات ۔۔..

ان سے آنکھیں چار ہوتے ہی ان کے چہرہ انور پر مسکراہٹ پھیل جاتی محسوس کیا جاتا کہ وہ زیر لب کچھ بول رہا ہے یقین آتا کہ وہ پیار سے کوٸی ادھ گالی دے رہا ہے یہ ان کی بے تکلفی کی آخری حد تھی ۔وہ اتنے پیارے تھے کہ شاید کوٸی ایکبار ان سے مل کر اس کی کرشماتی شخصیت کا دیوانہ نہ ہوا ہو ۔ہم سے سینٸر تھے ہم صرف اس کو ” امیر“ کے نام سےجانتے تھے ۔بھپتیاں کستے کہ” نام تیرا امیر ہے اور جیب میں ایک پاٸی بھی نہیں “ ۔۔امیر محمدخان ہمارے کالج کے سینٸر ساتھی تھے ۔۔تریچ وریمون سے تعلق تھا ۔۔بہت کھاتاپیتا خاندان تھا پھر آپ کا خاندان سین لشٹ چترال آکر آباد ہوگیا ۔امیر نے ہون چترال میں اپنے لیے الگ گھر بنایا ۔۔آپ کے بڑے بھائی  افسر علی ڈسٹرکٹ اکاونٹ آفیسر رہ چکے ہیں اور چترال کے چند قابل ترین آفیسروں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ آپ کا چچا نور افضل چترال کے معروف صحافی اورروزنامہ آج کے نماٸندے ہیں ۔ امیر محمدخان نے گورنمنٹ ہاٸی سکول زوندرانگرام سے میٹرک پاس کیا ۔۔گورنمنٹ کالج چترال سےگریجویشن کیا اور پشاور یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا ۔آپ نے کوٸی سرکاری ملازمت نہیں کی ۔کام کےسلسلے میں سعودی عرب گۓواپس آکر اپنا کاروبار شروع کیا۔ آخر اس پھول جیسے انسان کی صحت نے جواب دیا تقریبا ایک ادھ سال بیمار رہے اور دو جنوری 2024 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔امیرمحمدخان کو حج کی سعادت حاصل رہی ۔۔وہ خوبصورت زندگی لے کے آۓ تھے اس کو بھر پور گزارے اور اپنے پیچھے خوبصورت یادیں چھوڑ گۓ ۔۔ان کے پاس اخلاق حسنہ تھا۔ کبھی کسی کو ناراض نہیں کیا نہ کسی سے ازوردہ خاطر رہے ۔کسی دل کو دکھایا نہیں دعاٸیں اور محبتیں سمیٹیں اور فانی دنیا کو الوداع کیا ۔وہ یاروں کے یار ۔۔غریبوں کے مونس و غمخوار ۔۔ضرورتمندوں کے خاموش مددگار تھے ۔وہ بات کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے ۔ہنسی اس کی سوغات تھی ۔خلوص اور محبت کی چٹان تھے ۔پسماندگاں میں ان کے خاندان کے علاوہ ان کی تین بچیاں اور ایک غمخوار بیوہ ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اس کے نام کردی تھی ۔۔امیر بہت نرم خو، نرم دل اور خوش اخلاق تھے ۔ہنس مکھ، مرنجان مرنج اور شگفتہ طبیعت تھے ۔ان کی موجودگی میں ماحول زغفران زار ہوتا ۔وہ وفادار تھے حلقہ احباب وسیع تھا ۔ملنساری اس کی صفت تھی ۔وہ ہر ایک کے لیے بچھے جاتے ۔بہترین اخلاق مومن کی صفت ہے۔۔ان کی بیماری کے دوران میں بھاٸی صلاح الدین صالح سے ان کا حال احوال پوچھا کرتا ۔صالح بھاٸی کو بھی اللہ نے ایسے اوصاف سے نوازا ہے ۔۔وہ ” اسپہ دوست “ ہمارے دوست کہہ کر ان کےبارے میں معلومات فراہم کرتے ۔ہم ایک عظیم دوست اور بھاٸی سے محروم ہوگۓ ۔ان کے بعد ہماری مسکراہٹیں ادھی ہو جاٸیں گی اور لذت دنیا مٹتی جاۓ گی ۔۔ آج ہمیں گالیاں دینے والا کوٸی نہیں اور نہ کوٸی مسکراہٹ ہمارا استقبال کرےگی ۔۔امیر ہمیں افسردہ اور پژمردہ کر گۓ ۔ساتھی اٹھتے جارہے ہیں دل افسردہ ہوتا جارہا ۔کہیں زندگی نام کے اس ناٹک کا پردہ گرےاور ایپی سوٹ مکمل ہوجاۓ ۔۔۔اللہ ہمارے بھاٸی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔۔۔
زندگی جس کے دم سے تھی ناصر ۔۔۔۔۔۔۔۔یاد اس کی عذاب جان بھی ہے

زر الذهاب إلى الأعلى