چترال کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ ۔تحریر:ابوسدرہ
ادارے کا مراسلہ نگار کےساتھ متفق ہونا ضروری نہیں
ملک کے دیگر حصوں کی طرح اس وقت چترال میں بھی سیاسی مہم کا تقریباً آغاز ہو چکا ہے۔ مختلف جماعتوں کی طرف سے کاغذات جمع کرنے کا مرحلہ گزرنے کے بعد کاغذات وآپس لینے کا مرحلہ باقی رہتا ہے۔ گو کہ اصل صورت حال تیرہ جنوری کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کون میدان سے آؤٹ ہو گئے اور کون موجود رہے تاہم اب تک میدان ِ مقابلے کی جو تصویر سامنے موجود ہے اس کے مطابق سیاسی زائچہ یوں بنتا دکھائی دے رہا ہے ۔
لوئر چترال کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت چترال کے تقریباً سبھی بڑے سیاسی کھلاڑی میدان میں موجود ہیں۔ میدان میں موجود ان تمام کھلاڑیوں میں تقریباً یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ چترال کی حسبِ استطاعت نمائندگی کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ایک کو صفر سے ضرب دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک کو سو سے۔
قومی اسمبلی کی سطح پر دیکھا جائے تو شہزادہ افتخار الدین ، مولانا عبد الاکبر چترالی ، انجینئر فضل ربی اور سینیٹر طلحہ محمود کے درمیاں مڈبھیڑ کی توقع ہے۔ قومی اسمبلی کے لیے اچھے امیدوار ان چار کے علاوہ بھی اگرچہ میدان میں موجود ہیں تاہم کسی تگڑی پارٹی کی پشت پناہی سے محرومی انہیں مقابلے سے باہر نکال رہی ہے۔
سطور ِ بالامیں ذکر کردہ امیدورواں میں شہزادہ افتخار الدین جہاں اپنے والد محترم شہزادہ محی الدین کے ہمدرد حلقے کا ووٹ لیتے نظر آئیں گے وہاں اپنے دور میں کیے گئے کاموں کی بنیاد پر بھی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی طرح ممکنہ کنگ پارٹی کی طرف سے نامزدگی کو بھی اپنے حق میں کیش کرنے کی سعی کریں گے۔
چترال کے سبھی چھوٹے بڑے دانشور چترال میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ چترال سے حزبِ مخالف جماعت کے امیدوار کا انتخاب بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ اب قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ”کنگ میکرز” کی طرف سے مرکز میں نواز شریف کو تخت نشین کرنے کا بندوبست تقریباً طے ہو چکا ہے ایسے میں شہزادہ افتخار یہ کہہ کر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں کہ کچھ ڈھنگ کے کام کروانا ہو تو مجھے منتخب کر کے قومی اسمبلی میں بھیج دو۔ ورنہ ہمیشہ کی طرح چترال کے حصے میں تالیاں بجانا اور “نظر انداز کرنا” ہی آئے گا ۔ اسی طرح شہزادہ افتخار کے کریڈٹ میں ذاتی شرافت اور کردار کی ستھرائی بھی موجود ہے۔
قومی اسمبلی کے لیے اگلے مضبوط کھلاڑی شریف النفس انجینئر فضل ربی ہیں ۔ انجینئر صاحب اس الیکشن میں پہلی دفعہ قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ایک کامیاب کاروباری انسان ہونے کے ناتے ان کے لیے بھی نیا سیاسی چیلنج بوجوہ زیادہ مشکل نظر نہیں آرہا۔ موصوف ایک عرصے تک جماعت اسلامی میں رہے پھر ضلعی جماعت کے مخصوص اندازِ سیاست سے نالاں ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہی نہیں ہوئے ، اگلی صفوں میں جگہ بھی بنا گئے۔ ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے صاف ستھری شخصیت کے حامل فضل ربی کے لیے سب سے بڑا چیلنج این اے ون کی سیٹ بطورِ تحفہ بلاول بھٹو کے سامنے رکھنا ہے۔
انجینئر صاحب کے لیے پلس پوائنٹ ٹاؤن چترال کا باسی ہونا بھی ہے۔ ٹاؤن چترال والے اپنے مسائل کے ترجیحی حل کے لیے اگر انجینئر صاحب کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ باقی امیدواروں کے لیے بڑا سرپرائز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ لٹکوہ کے بعد جغور اور بکامک سے لے کر کاری اور بلچ تک پھیلی ٹاؤن کی آبادی آٹھ فروری کے دن فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔
ان دو کے علاوہ مزید دو تگڑے امیدوار مولانا عبد الاکبر چترالی اور سینیٹر طلحہ محمود بھی جیت کے خواب کے ساتھ میدان میں موجود ہیں ۔ جس طرح سینیٹر طلحہ کا کل انحصار جے یو آئی کے انتہائی سرگرم ووٹرز پر ہوگا اسی طرح مولانا چترالی کا سارا دارو مدار بھی جماعتی ووٹر پر ہی گا۔
چترال کے طول و عرض میں پھیر کر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنا مولانا چترالی کے لیے سخت امتحان ہوگا۔ حلقے کے ووٹرز امیدوار کو جیتوا کراگر اسمبلی بھیجتے ہیں تو بدلے میں توقع بھی کرتے ہیں کہ ان کا ممبر وقتاً فوقتاً اپنی زیارت بھی کرواتا رہے ایسا نہ کرنے کی صورت میں ووٹر ناراض ہی نہیں ہوتا ، ناراضی کا عملی اظہار ووٹ والے دن نظر انداز کر کے بھی کرتا ہے۔
قومی اسمبلی کے لیے ایک اور امیدوار سینیٹر طلحہ محمود ہیں ۔ سینیٹر صاحب چترال کے نہیں ہیں ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ غیر مقامی بندے نے یہاں سے الیکشن لڑا ہو ۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتارہا ہے۔ طلحہ محمود بنیادی طور پر ایک متمول شخص ہی نہیں ، طلحہ محمود فاؤنڈیشن کے نام سے ایک عدد خیراتی ادارہ بھی چلارہے ہیں ۔ ماضی میں انہوں نے چترال میں بڑی مالیت کے پیکیجز بھی تقسیم کیے ہیں ۔ پتہ نہیں چترال کو انہوں نے کیوں اپنا انتخابی حلقہ بنانے کا فیصلہ کیا بہرحال یہاں سے سیٹ نکالنا ان کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا آسان موصوف سمجھ رہے ہیں۔ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر انہیں یہاں سے لانچ کرنے کی وجہ سے خود جے یو آئی کا ورکر بھی گومگو کی کیفیت میں ہے۔ اگر جے یو آئی کی ضلعی کابینہ بروقت اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو نو فروری کا سورج ان کے لیے خجالت کی کرنیں لے کر طلوع ہو سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح صوبائی اسمبلی کے لیے بھی میدان میں کافی سارے اُمیدوار موجود ہیں لیکن ان میں مضبوط امیدوار سلیم خان ، شہزادہ خالد پرویز ، مولانا فیض محمد المعروف مہتمم صاحب اورحاجی مغفرت شاہ ہیں۔ سلیم خان مضبوط ترین امیدوار اس لیے ہیں کہ موصوف جہاں ایک طرف ہر یونین کونسل سے ووٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہاں دوسری طرف لٹکوہ ویلیز میں بلا شرکتِ غیرے تن تنہا ووٹوں پر ہاتھ صاف کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ انہیں ویلیز سے ووٹ محض اس لئے نہیں ملتا کہ موصوف فرزند انجگان ہیں بلکہ اس لیے بھی ملتا ہے کہ موصوف اہل علاقہ کی بساط بھر خدمت بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان کی چھوٹی بڑی خدمات لٹکوہ کے علاوہ دیگر یوسیز میں بھی نظر آتی ہیں۔ شہزادہ خالد پرویز بھی بھی منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی ہیں ۔ دروش تحصیل خصوصاً اطراف و اکناف میں شہزادہ صاحب کے ٹھیک ٹھاک ووٹرز موجود ہیں۔ اس بار گوکہ شیشی کوہ سے حاجی انظر گل اپنا لاؤ لشکر سمیت میدان میں موجود ہے لیکن شہزادہ صاحب بھی چونکہ “قسمت جگانے والوں” کی آشیرباد سے میدان میں اترے ہیں اس لیے تھوڑی سی محنت کر کے ان کے لیے سیٹ نکالنا مشکل نہیں ہو گا۔
صوبائی اسمبلی کے لیے ایک اور مضبوط امیدوار مولانا فیض محمد المعروف مہتممم صاحب ہیں ۔ چترال میں عام تاثر یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی اتحاد کے بغیر سیٹ نہیں نکال سکتے اور یہ تاثر غلط بھی نہیں ہے لیکن اس بار جے یو آئی والے مولانا فیض محمد کو لے کر سیٹ نکالنے کے لیے اس لیے پُرعزم ہیں کہ موصوف صرف علماء و طلبا اور جے یو آئی والوں میں ہی نہیں ، مختلف شعبہائے زندگی والوں میں بھی یکساں مقبول ہیں ۔ تعلقات پالنا، نبھانا اور خدمت کے زریعے مخلوقِ خدا کا دل جیتنا موصوف کی ایسی صفت ہے جو اسے معاصرین سے ممتاز و فائق کرتی ہے۔ سیاسی اور سماجی معاملات میں فعال مولانا فیض محمد بنیادی طور پر مدارس کے انتظام و اہتمام سے وابسطہ ہیں ، اس وقت پشاور کے نہ صرف ایک مدرسے کے مہتمم ہیں بلکہ ساتھ ساتھ وفاق المدارس کے صوبائی مسؤل بھی ہیں۔
چترال کی سیاست کے بڑے کھلاڑی سمجھے جانے والے حاجی مغفرت شاہ بھی صوبائی اسمبلی کے لیے بطورِ امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ حاجی صاحب کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ سیاست میں درست شاٹ کھیلنے ، جوڑنے توڑنے اور سیاسی مخالفین کو چت لٹانے کے ماہر ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ ماضی میں دو دفعہ ضلعی ناظم رہنے والے حاجی مغفرت شاہ آٹھ فروری کو اپنے پتے کس طرح کامیابی سے کھیلتے ہیں ۔ گوکہ حاجی صاحب کی پشت پر جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت موجود ہے تاہم فی الوقت الیکشن والے مرحلے کو جیت کے ساتھ عبور کرنا ان کے لیے ایک مشکل اسائمنٹ لگ رہا ہے۔
یہ سارا تجزیہ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلا کے چھن جانے اور عبد اللطیف وغیرہ کا راستہ بزورِ ریاست روکنے کی صورت میں ہے۔
اگر زیرِ عتاب پی ٹی آئی کو بلا مل جاتا ہے یا پھر پی ٹی آئی کے قدآور رہنماؤں کو میدان میں اترنے کا موقع دیا جاتا ہے تو پھر تجزیے اور زمینی صورت حال میں کافی فرق آ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے اس وقت تک درست صورت حال معلوم نہیں ہے کہ صوبائی ٹکٹ نوجوان نظریاتی رہنما محمد شریف خان کو ملتا ہے یا مہتر چترال کو ، یا پھر کسی وکیل یا خاتون کو ۔ اس لیے اس پر فی الحال روشنی نہیں ڈالی ۔