کیا چترالی امیدواروں نے طلحہ محمود کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔؟…کریم اللہ

8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے چترال میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار جلسہ جلوسوں اور کارنر میٹنگوں میں مصروف ہے۔ تاہم چترال کی سیاست اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر چکی ہے کیونکہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اپنے قومی اسمبلی کا ٹکٹ سینیٹر طلحہ محمود کو دے کر انہیں میدان میں اتارا گیا ہے۔ اور طلحہ محمود صاحب بھی اس الیکشن میں بھر پور جاریحانہ انداز سے کھیل رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو سوشل میڈیا سے لے کر نجی محفلوں میں محمد طلحہ محمود کا تذکرہ ہی ہو رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ ان کی شخصیت اور سرمائے کی فراوانی ہے تاہم ان کے مد مقابل امیدواروں کا کہیں پتہ بھی نہیں چل رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ چترال کے سارے جماعتوں کے امیدوار محمد طلحہ محمود کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں یا ہمت ہار چکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس مرتبہ چترال کے قومی اسمبلی میں اپنے سرمایہ دار امیدوار فضل ربی جان کو میدان میں اتار چکے ہیں مگر ابھی تک فضل ربی جان کی کوئی موثر انتخابی مہم یا سیاسی ایکٹویٹی نظروں سے نہیں گزری۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف این جی اوز کے کسی پراجیکٹ میں سوشل موبیلائزیشن کے انداز سے سیاست میں مصروف ہے۔ جبکہ سیاسی حرکیات کسی این جی اوز کے سوشل موبیلائزیشن جیسی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے پی پی پی چترال کی صفوں میں بھی شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

اسی طرح مسلم لیگ ن کے امیدوار شہزادہ افتخار الدین بھی شروع میں کافی ایکٹیو دکھائی دئیے مگر اب گزشتہ کم و بیش ایک ہفتے سے زائد عرصے سے وہ بھی منظر سے غائب ہے۔

اسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالاکبر چترالی بھی انتخابی مہم شروع کرنے سے قبل کافی بھڑکیں مار رہے تھے مگر ایک پریس کانفرنس کے بعد وہ بھی غائب ہو گئے ہیں جبکہ ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے امیدوار حاجی مغفرت شاہ زور و شور سے اپنا انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عبدالطیف اپر چترال میں بھر پور انتخابی مہم لانچ کیا ہوا ہے۔

ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی یہ سست روی اس بات کا غماز ہے کہ وہ جے یو آئی کے امیدوار محمد طلحہ محمود کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں یا ان کے سامنے ابھی سے شکست تسلیم کر چکے ہیں۔

زر الذهاب إلى الأعلى