والد بزرگوارنثاراحمدشاکر،قسط نمبر 2۔(سرکاری ملازمت کاانقلابی دور)۔ازآصف نثارغیاثی۔
والد گرامی کی تاریخ پیدائش 20 اکتوبر 1945 ہے ان کا تعلیمی ریکارڈ بھی بہت شاندار تھا گورنمنٹ کالج پشاور سے 1965 میں گریجویشن کیا کالج کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے آگے رہے بہترین مقرر تھے کالج سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری تھے بلا کے خوش نویس تھے زمانہ طالبعلمی سے ہی کتابت کے ذریعے اپنے اخراجات خود اٹھانے کی عادت ڈالی ہوئی تھی انہیں اپنے والد اور بڑے بھائیوں کی طرح درس و تدریس سے بہت شغف تھا اور اسی پیشے سے منسلک ہونا چاہتے تھے مگر دادا مرحوم غیاث احمد کی خواہش تھی کہ وہ کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ جائن کریں گریجویشن کے فوراً بعد اپنی قابلیت کی بنیاد پرمحکمہ امداد باہمی میں انسپکٹر کی پوسٹ کے لیے منتخب ہوئے اس زمانے میں کوآپریٹو ٹریننگ کالج فیصل آباد میں تھا جہاں پر ہاسٹل میں بہت شاندار وقت گزارا کیونکہ دادا جان کی نصیحت تھی کہ کھانے اور پہننے کے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا اپنا کچن چلاتے اور سب کو حیران کر کے رکھ دیا تھا وہاں سے فراغت کے بعد ان کی پہلی پوسٹنگ بٹگرام ہزارہ میں ہوئی دوران سروس ڈٹ کر قانون و قواعد پر عمل پیرا رہے اور کبھی سیاسی و سرکاری دباؤ برداشت نہیں کیا یہ واحد محکمہ تھا جس کے اہلکاروں کی کوئی یونین نہیں تھی ان کے انتہائی قریبی دوست محترم رحم شیر خان خلیل کے مطابق بھٹو دور کی بات ہے کہ ایک دن خبر آئی کہ خواجہ سراؤں نے اپنی یونین بنا دی ہے کہتے ہیں کہ یہ سن کر نثاراحمد بھڑک اٹھے چُونکہ ان کے اندر ایک انقلابی ہمیشہ سے موجود تھا اس لیے روز اول سے ہی یونین سازی پر زور دیتے رہتے تھے یہ خبر آئی تو کہنے لگے کہ آگر معاشرے کا اتنا کمزور سمجھا جانے والا طبقہ بھی یونین بناسکتا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں مگر سرکار کے ڈر سے کوئی آگے آنے کے لیے تیار نہیں تھا ایک روز والد بزرگوار اپنے دیگر چار پانچ دوستوں کے ساتھ شاہی باغ گئے اور کافی بحث مباحثے کے بعد صوبہ کی تاریخ میں پہلی بار فیلڈ سٹاف ایسوسی ایشن کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ قائم کی اور وہ خود اس کے بانی صدر منتخب ہوئے محترم رحم شیر خان خلیل جو خود بھی انقلابی ذہن کے مالک تھے جنرل سیکرٹری بن گئے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا اس محکمہ کے لیے پہلے میگزین کے آغاز کا سہرا بھی انہی کے سر ہے تڑون کے نام سے میگزین شروع کر کے کامیاب بھی بنایا اور یہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کرتے رہے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء میں انہوں نے کوآپریٹو سٹاف کی ملک گیر تنظیم قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا مارشل لاء تھا نقل و حرکت آسان نہ تھی ٹیلیفونک رابطے بھی نہ ہونے کے برابر تھے ایسے میں انہوں نے دیگر صوبوں کے کوآپریٹو فیلڈ سٹاف کے ساتھ رابطے کے لیے انوکھا طریقہ اختیار کیا وہ اپنے ساتھی رحم شیر خان کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف اضلاع کے متعلقہ اہلکاروں کے نام خط لکھ کر ملک گیر یونین سازی کی دعوت پر مشتمل پمفلٹ تیار کرتے اور پھر رات کو دونوں پشاور ریلوے اسٹیشن جاکر پنجاب اور کراچی جانے والی ریل گاڑی کی بوگیوں پر خود ہی چسپاں کرتے یوں یہ پمفلٹس پورے پنجاب میں پھیلتے چلے گئے اور پھر پنجاب بھر سے ان کے ساتھ رابطے ہونے لگے اور پھر ایک روز لاہور جاکر کوآپریٹو فیلڈ سٹاف کی پہلی ملک گیر یونین قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور انہی کو پورے ملک کی اس ایسوسی ایشن کا بانی صدر منتخب کر لیاگیا جو بہت بڑا اعزاز تھا اس زمانے میں صاحبزادہ امتیاز (جو بعد میں صوبہ کے چیف سیکرٹری بھی رہے) زراعت کوآپریٹو کے سیکرٹری تھے ایک دن ان دونوں کو بلوایا اور کہنے لگے کی پنچاب سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے آپ لوگوں کے خلاف مسلسل شکایات موصول ہورہی ہیں کہ آپ لوگ ان کے صوبائی ملازمین کو ورغلانے میں مصروف ہیں آپ کی گرفتاری کا کہاگیا ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ لوگ اس ایسوسی ایشن سے پیچھے ہٹ جائیں صاحبزادہ امتیاز میں چونکہ پختون قوم پرستی کے جراثیم موجود تھے اس لیے انہوں نے موقع کی مناسبت سے کہہ دیا کہ جناب یہ پختونوں کے لیے کس قدر شرمندگی کی بات ہوگی کہ اب اس مرحلہ پر ہم پیچھے ہٹ جائیں یہ سن کر صاحبزادہ امتیاز بھی نرم پڑ گئے تاہم انہیں ہدایت کی ہاتھ تھوڑا نرم رکھیں اس کے بعد انہوں نے مرکزی صدر کی حیثیت سے چاروں صوبوں کے دورے کرکے کئ کامیاب پروگرام بھی کیے حتیٰ کہ کامیاب ملک گیر ہڑتال بھی کرائی۔۔۔۔۔۔۔ جاری